سب کو ملے ہیلتھ کا حق
ڈاکٹروں کو زمین کا بھگوان کہا جاتا ہے۔ صحیح بھی ہے، زندگی کی امید چھوڑ چکے تمام لوگوں میں جان بچانے کی کوشش رہی ہے اور انہی کے دم پر ممکن ہوپاتی ہے۔سنگین امراض سے موت کے جبڑے سے ہر سال لاکھوں لوگوں کو یہی زندگی دلاتے ہیں۔ انسانیت کی خدمت کے لئے اس پیشے کی وفاداری پر کوئی شبہ نہیں کرسکتا لیکن حال ہی میں دہلی اور گوڑ گاؤں کے دو اسپتالوں میں رونما واقعات پرائیویٹ میڈیکل سیکٹر کے طریقہ کار پر سنگین سوال ضرور کھڑے کرتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ سرکار کے پاس ہیلتھ سروسز زیادہ نہیں ہیں جو ہیں بھی وہ بھی بھگوان بھروسے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں تیزی سے سرمایہ کاری جاری ہے لیکن منافع خوری اور انتہا لاپروائی نے اس سیکٹر سے جیسے اس کا بنیادی مقصد ہی چھین لیا ہے۔ لوگوں کو یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ جو علاج انہیں نجی اسپتال سے ملا کیا وہ واجب قیمت والا اور کوالٹی سے بھرا تھا۔ حال ہی میں انڈین میڈیکل کونسل کو ختم کرکے نیشنل میڈیکل کمیشن بنانا سرکار کا لائق تحسین قدم ہے لیکن چنوتیاں بہت ہیں۔ ایسے میں نجی اسپتالوں کے تئیں لوگوں کے اعتماد کی بحالی کی پڑتال بڑا اشو بن گیا ہے۔ یہ منتھن کرنے کا وقت ہے کہ ہیلتھ سروسز کے معاملہ میں دیش کہاں کھڑا ہے؟ کسی نجی اسپتال کو کچھ دن کے لئے بندکرنا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ اسپتال بند کردینے اور ڈاکٹروں کو گالی دینے سے ہیلتھ خدمات میں بہتری نہیں ہونے والی ہے۔ صحیح معنوں میں تو مرکز و ریاستی حکومتیں نے ہیلتھ سیکٹر کو اب تک نظر انداز ہی کیا ہے۔ جو مریضوں کو پرائیویٹ اسپتالوں میں بھاری بھرکم بل اور سرکاری اسپتالوں میں علاج کے لئے مہینوں انتظار کرنے کی شکل میں چکانا پڑ رہا ہے۔ دیش کی اس بگڑی ہوئی صحت کو وسیع ہیلتھ بیمہ سے ہی سدھار کیا جاسکتا ہے۔سرکارکے بھروسے بیماریوں سے جنگ ممکن نہیں ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کے اسپتال 80فیصدی و پبلک سیکٹر کے اسپتال 20 فیصدی سہولیت ہی دستیاب کرا رہے ہیں جبکہ پبلک سیکٹر کے اسپتالوں پر دیش کی 70سے80 فیصدی آبادی منحصر ہے۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ایسی پالیسی تیار کو جس سے لوگوں کو بہتر کفایتی طبی سہولت مل سکے۔ سرکار چاہے تو تعلیم کے حق ، غذائی سیکورٹی حق کی طرح ہیلتھ کا بھی حق قانون لا سکتی ہے لیکن کیا اس سے مسئلہ کا حل ہو پائے گا؟ دیش کے 130 کروڑ لوگ اگر روز ایک ایک روپیہ ہیلتھ بیمہ کے لئے نکالیں تو یومیہ 130 کروڑ روپے جمع ہوسکتے ہیں۔ اس طرح علاج کے لئے بڑی رقم بچائی جاسکتی ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں