انتخابی فنڈ پر شفافیت لانے کی ایک اور کوشش

مرکزی حکومت نے منگل کوچناؤی بانڈ اسکیم کا تفصیلی فریم ورک جاری کرکے شفاف اور صاف انتخابی فنڈ کی طرف اہم اقدامات کئے ہیں . وزیرمالیات ارون جیٹلی نے 2017۔18 کے بجٹ کے دوران پارلیمنٹ میں اس اسکیم کا آغاز کیا تھا. حکومت دعوی کر رہی ہے کہ یہ منصوبہ سیاسی جماعتوں میں نقد ی چلن ش کی حوصلہ افزائی کرے گا اور اس طرح انتخابات میں کالے دھن کے استعمال کی روک تھام کرے گی. گزشتہ چند سالوں کے دوران انتخابی اخراجات بڑھ رہے ہیں اور انتخابی کمیشن کے تمام پابندی کے باوجود، سیاسی جماعتوں کو ان کی اخراجات کو روکنے کی دلچسپی نہیں ہے اس میں ایسے قدم کی توقع کی جارہی تھی ۔
چناؤیُ خرچ پر لگام نہ لگ پانے کے بڑی وجہ کالے دھن کو چھپائے جاناتھا. اب آنے والے انتخابات میں حکومت کے دعوی کی حقیقت معلوم ہو گی۔ ابھی تک امید مند خیالات کے ساتھ، یہ صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ منصوبہ ایک حد تک سیاہ رقم کے استعمال کو روکنے میں روک سکتا ہے لیکن مکمل طور پر نہیں. اس منصوبہ کے مطابق سیاسی جماعتوں کے لئے ایک ہزار سے لے کر ایک کروڑ روپے کی قیمت تک کے انتخابی بانڈ ایس بی آئی بینک کی چنندہہ شاخوں سے خریدے جا سکیں گے اور اس میعاد 15 دن کی ہوگی یعنی انہیں صرف مجاز بینک اکاؤنٹس کے ذریعے اس میعاد کو اندر بھنانا ہو جائے گاچناؤی بانڈ لینے کی کچھ خانہ پوری بھی مقررکی گئی ہے مثال کے طور پر، ایک سیاسی جماعت کو رجسٹریشن اور پچھلے چناؤں میں میں کم سے کم ایک فیصد ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔
انتخابی اخراجات کو روکنے کے قابل نہیں ہونے کی ایک بڑی وجہ چندہ کی شکل میں کالاچھن کوچھپانا ہے. چند سال پہلے، پارٹیوں کو نقد رقم لینے اور عوام سے اپنی شناخت کو چھپانے کے لئے آزاد تھے۔
اس طرح، کمپنیاں اور کاروباری اداروں بڑے پیمانے پر کالے دھن کوکو چھپانے کے قابل تھے۔ اس کے بجائے ان کے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے تھے ، لیکن مودی حکومت نے لگا کستے ہوئے اس کی حد پہلے 20ہزار روپے اور پھر 10ہزار روپے کی بعد میں محض 2 ہزار روپئے کردی ۔پھر بھی پچھلے دنوں ہوئے انتخابات میں پارٹیوں اور امیدواروں کے اخراجات کی کوئی کمی نہیں دکھائی دی اس لئے سیاسی جماعتوں نے چندہ اکھٹا کرکے دوسرے راستے اپنالئے ایسی وہ صرف بانڈ کے ذریعہ چندہ لیں گے ،یہ دعوی کرنا مشکل ہے ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟