ادھیاتم کے نام پر یہ عیاشی کے اڈے
یہ ہمارے باباؤں کو کیا ہوگیا ہے؟ دھرم کی آڑ میں کچھ بابا بے قصور انویایوں کا جنسی استحصال کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ابھی گورمیت سنگھ رام رحیم کی عیاشیوں کی داستان پرانی بھی نہیں ہوئی تھی کہ دیش کی راجدھانی میں ایک اور بابا کی کالی کرتوت کا پردہ فاش ہوا ہے۔ روہنی کے وجے وہار علاقہ میں ادھیاتمک یونیورسٹی کے نام سے چلنے والے آشرم کے بابا وریندر دیو دیکشت خود کو کرشن بتاتا تھا۔ وہ ہمیشہ مہلا چیلیوں کے درمیان رہنا پسند کرتا تھا۔ وریندر نے 16 ہزار مہلاؤں کے ساتھ رشتے بنانے کا ٹارگیٹ رکھا تھا۔ ادھیاتمک کی آڑ میں برسوں سے چلے آرہے سیکس ریکٹ کا انکشاف بیحد چونکانے والا ہے جہاں سینکڑوں لڑکیوں اور عورتوں کو یرغمال بنا کر رکھا گیا تھا۔ ہائی کورٹ کی ہدایت پر منگلوار دیر رات آشرم کی جانچ کرنے پہنچی دہلی مہلا کمیشن و دہلی پولیس کی ٹیم کو ملے ویڈیو میں یہ بات سامنے آئی۔ کارروائی میں کئی لڑکیوں کو محفوظ نکالا گیا اور دونوں ملازمین کو حراست میں لے لیا گیا۔ مشتبہ سرگرمیوں اور مقامی لوگوں کے احتجاج و شکایت کے باوجود دہلی میں اب تک یہ آشرم بغیر روک ٹوک چلتا رہااس سے تصور تو کیا جاسکتا ہے کہ دیش کے دور دراز علاقوں میں کیا حالت ہوگی۔سیکس ریکٹ کا یہ سسٹم آدھیاتمک یونیورسٹی کے نام سے چل رہا تھا جس میں مذہبی کتابوں کی بجائے فحش کتابیں، خطوط ، دوا اور سرنج ملے۔ مذہب کی آڑ میں عورتوں کے جنسی استحصال کے قصے بار بار سامنے آتے ہیں۔ اس معاملہ میں یہ بھی صاف ہے کہ زیادہ تر غریب اور غیر محفوظ عورتوں کو آستھا کے نام پر ورغلایا گیا اور ایک سے زیادہ پولیس والوں کی بیٹیاں اور امریکہ میں پی ایچ ڈی کرکے لوٹی ایک لڑکی تک کا اس آشرم پھنس جانا مذہب سے جڑی ہماری دقیانوسی نظریئے کا ہی نتیجہ ہے جس کا غلط فائدہ رام رحیم اور وریندر دیو جیسے لوگ اٹھاتے ہیں۔ پولیس ٹیم کوملے ویڈیوسامنے آیا کہ وریندر خود کو کرشن بتاتا اور گوپیاں بنانے کے لئے انویائی لڑکیوں کو تعلق بنانے کے لئے راضی کرتا۔ آشرم میں لڑکیوں کو پانچ دن تک ایک کمرے میں بند رکھا جاتا تھا۔ اس کے بعد بابا ویڈیو دکھا کر ان کا برین واش کیا جاتا۔ دہلی مہلا کمیشن کی چیئرمین سواتی جے ہند ے بتایا کہ عورتوں کو نشے کی دوا دی جاتی تھی۔ انہوں نے عورتوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ دکشا لے رہی ہیں لیک وہاں کوئی مذہبی گرنتھ نہیں ملا۔ چار منزلہ آشرم کے اندر بورڈ پر لکھا تھا آپ سے کوئی پوچھے کیسے ہو تو کہنا کے خوش ہیں، پڑوسیوں نے بتایا کہ رات میں لڑکیاں یہاں سے آتی جاتی ہیں۔ یہاں جسم فروشی کا دھندہ چلتا ہے۔ عمر کم ہونے کے باوجود عورتوں کو باہر نکال دیا جاتا تھا۔مختلف ریاستوں کی لڑکیاں یہاں رہتی ہیں۔ ان میں خاص طور سے اڑیسہ، بنگال، کرناٹک، تاملناڈو، یوپی اور راجستھان وغیرہ شامل ہیں۔پورے معاملے کا انکشاف تب ہوا جب راجستھان کی عورت وریندر کے آشرم میں انویائی بن کر رہ چکی تھی اس نے اپنی چاروں بیٹیوں کو بھکتی کے لئے چھوڑا تھاجس میں ایک نابالغ ہے۔ اس نے بتایا کہ بابا نے اس کے ساتھ بدفعلی کی۔ مہلا اور اس کے شوہر نے بابا پر بدفعلی کا کیس درج کریا۔ بعد میں پورا معاملہ سامنے آگیا۔ بابا پر بدفعلی سمیت کئی دفعات میں 11 معاملے درج ہیں۔ پولیس ان سبھی کی جانچ کررہی ہے۔ وریندر دیکشت پر دہلی ہائی کورٹ نے شکنجہ کس لیا ہے۔ عدالت نے آشرم کی دیگر شاخوں کی جانچ کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے سی بی آئی کو ہدایت دی ہے کہ آشرم کے باجی وریندر دیو دیکشت کو پکڑ کر 4 جنوری تک عدالت میں پیش کرے۔ عدالت کے سامنے جمعرات کو 168 ایسی عورتوں ،لڑکیوں کی فہرست پیش کی گئی جو آشرم میں مبینہ طور پر یرغمال ہیں۔ ہائی کورٹ نے پوچھا کہ کہاں چھپا ہے بابا وریندر دیکشت؟ نگراں چیف جسٹس گیتا متل اور جسٹس سی ہری شنکر کی بنچ نے پوچھا کہ آشرم کے بانی اور ادھیاتمک انچارج سچے ہیں تو پیش کیوں نہیں ہورہے ہیں وہ کہاں ہیں؟ یہ محض اتفاق نہیں کہ 21 ویں صدی کے ترقی یافتہ دور میں مذہب کے نام پر ٹھگنے والے لوگوں کی دوکانیں بھی اسی زور شور سے چل رہی ہیں۔ ہم آستھا اور ادھیاتم کی تو بات کرتے ہیں لیکن اس پر کبھی غور کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ دیش کی بڑی آبادی آج بھی مذہب کے نام پر ٹھگی کا شکار کیوں بن رہی ہے؟ پچھلے کچھ عرصہ سے ان باباؤں کی کالی کرتوت کا پردہ فاش ہورہا ہے اور یہ اچھی بات ہے کہ بھولی بھالی جنتا کو مذہب کے نام پر اس طرح گمراہ کرکے اپنی نجی عیاشی کا شکار بنانے والے ان دھونگی باباؤں کا پردہ فاش ہورہا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ ہماری بھولی بھالی جنتا ان کے شکنجہ میں پھنسنے سے بچے گی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں