ایک لاکھ76 ہزار کروڑ کا 2 جی گھوٹالہ جو کبھی ہوا ہی نہیں

اب تک 2 جی گھوٹالہ کو دیش کا سب سے بڑا گھوٹالہ مانا جاتا تھا لیکن سی بی آئی کی اسپیشل کورٹ میں یہ ایک روپئے کا بھی گھوٹالہ ثابت نہیں ہوسکا۔ عدالت نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ گھوٹالہ ہے ہی نہیں۔ سرکاری دستاویزوں سے نکلی محض ایک افواہ ہے۔ ٹوجی اسپیکٹرم الاٹمنٹ سے وابستہ معاملوں میں سی بی آئی اسپیشل جج اوپی سینی نے سارے ملزمان کو الزام سے بری کردیا۔بیشک سی بی آئی نے اس فیصلہ کو بڑی عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن تلخ حقیقت تو یہ ہی ہے کہ وہ اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ پچھلے سات سال میں ٹوجی اسپیکٹرم کے الاٹمنٹ میں ہوئی بے ضابطگیوں ، کرپشن اور پیسے کے لین دین کے الزامات کو ثابت کرنے کے لئے درکار ثبوت اکٹھا نہیں کرپائی نتیجتاً اسپیشل جج نے سابق کمیونی کیشن وزیر اے راجا اور ڈی ایم کے ایم پی، سابق کمیونٹی کیشن سکریٹری سدھارتھ بیہورہ سمیت تین ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں سوان ، یونیٹیک اور ریالائنس کے حکام کو الزام سے بڑی کردیا۔ اس پورے معاملہ میں یوپی اے حکومت کے عہد میں تب زلزلہ لا دیا تھا اس وقت کے کمپٹرولر آڈیٹر جنرل ونود رائے نے اپنی رپورٹ میں یہ اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ2007-8 میں ٹوجی کا لائسنس الاٹمنٹ 2001 کی شرحوں سے کیا گیا جس میں سرکار کو اندازاً 1.76 لاکھ کروڑ کا نقصان ہوا۔ حالانکہ سی بی آئی نے جو معاملہ درج کئے ان میں اس نے 30 ہزار کروڑ روپئے کے نقصان کی بات کہی تھی۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں یوپی اے نے 2009 میں پھر سے کامیابی حاصل کر اپنی دوسری میعاد یہاں یوپی اے ۔2 شروع کی تھی۔ کانگریس کی رہنمائی والی سرکار کا کام کاج سب ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا تبھی ٹوجی اسپیکٹرم گھوٹالہ کی گونج نے نہ صرف کانگریس بلکہ پورے دیش کی سیاست کی سمت اور حالت کو ہمیشہ کے لئے بدل دیا۔ ایسے میں جب جمعرات کو اسپیشل کورٹ نے اس کے ملزمان کو مقدمے میں بری کردیا ہے تو اس کے معنی کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکم آنے کے محض 30 منٹ کے اندر ہی کانگریس کی جانب سے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ اور سابق وزیر پی چدمبرم اور سابق ٹیلی کام منتری کپل سبل سمیت پارٹی کے ترجمان جارحانہ انداز میں میڈیا کے سامنے آئے۔ فطری ہی ہے کہ ٹو جی میں ملزمان کے بری ہونے سے کانگریس گد گد ہے۔ پارٹی اس معاملہ کو بڑی جیت کی شکل میں پروپگنڈہ کرنا چاہے گی۔ راہل گاندھی کے کانگریس صدر بننے کے بعد پہلی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میںیہ فیصلہ ہوا کہ پورے دیش میں یہ پیغام دیا جائے کہ ٹوجی گھوٹالہ کے نام پر وزیر اعظم مودی اور بھاجپا نے پورے دیش میں کانگریس کو بلا وجہ بدنام کیا۔ کانگریس ٹو جی میں 176 ہزار کروڑ روپئے گھوٹالہ کا اندازہ لگانے والے اس وقت کے سی اے جی ونود رائے کو کھلنائک کی طرح پیش کرنا چاہتی ہے اور دیش کو بتانا چاہتی ہے کہ انہوں نے سی اے جی کی ڈرافٹ رپورٹ لیک کرکے بھاجپا کے ساتھ ہاتھ ملا لیاتھا۔ اسی سلسلہ میں پارٹی وزیر اعظم کے سکریٹری نرپندر مشر کو بھی نہیں چھوڑنا چاہتی جو ٹو جی گھوٹالہ کے وقت ٹرائی کے چیف تھے اور ان کی ہی سفارش پر اسپیکٹرم کا الاٹمنٹ کیا گیا تھا۔ ٹوجی اسپیکٹرم معاملہ میں سابق وزیر اے راجا سمیت سبھی ملزمان کو بری کرتے ہوئے اسپیشل جج اوپی سینی نے کہا ایک بھی ثبوت نہیں ملا جس سے اس میں کوئی گھوٹالہ نظر آئے۔ جج موصوف نے کہا کہ پچھلے سات برسوں سے ورکنگ ڈیز میں، سمر وکیشن کے دوران بھی میں پورے بھروسے کے ساتھ صبح دس بجے سے لیکر شام پانچ بجے تک اوپن کورٹ میں بیٹھا رہا اور انتظار کرتا رہا کہ کسی کے پاس کوئی ثبوت نکلے لیکن کچھ بھی نہیں نکل کر آیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر کوئی افواہ، گپبازی اور تصورات سے ہی بنی عام رائے میں کہہ رہا تھا۔ حالانکہ جنتا کی سوچ عدلیہ کی کاروائیوں میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ ادھر کانگریس کے میڈیا انچارج رندیپ سرجے والا نے کہا کہ ٹوجی معاملہ میں بی جے پی کی پول کھل گئی ہے۔ راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے ڈپٹی لیڈر آنند شرما نے کہا کہ ٹوجی معاملہ کے بعد انعام کے طور پر سابق سی اے جی چیف ونود رائے کو بی سی سی آئی میں اہم عہدہ دینے کے ساتھ ساتھ بینکوں میں اصلاحات کیلئے بنی کمیٹی کی سربراہی سونپ دی گئی۔ وہیں غلام نبی آزاد نے کہا کہ آج اس ٹوجی معاملہ میں فیصلہ آیا جس کے سبب ہم اپوزیشن میںآئے اور این ڈی اے اقتدار میں آئی۔ سی بی آئی ذرائع نے کہا فیصلہ سے مایوسی ہوئی لیکن ہمیں پختہ بھروسہ ہے کہ ہائی کورٹ میں اپنی بات ثابت کرنے کے لئے درکار ثبوت پیش کریں گے اور پورے معاملے میں ہمارے پاس ایسے حقائق ہیں جس سے بالائی عدالت میں مقدمے کا رخ مڑے گا۔ ادھر مرکزی وزیر مالیات ارون جیٹلی نے کہا کہ کانگریس فیصلہ کو ایمانداری کا سرٹیفکیٹ مان رہی ہے لیکن یہ کرپٹ پالیسی تھی۔ کانگریس اس فیصلے کو ایمانداری کا تمغہ مان رہی ہے جو صحیح نہیں ہے۔2012 میں سپریم کورٹ نے اسپیکٹرم الاٹمنٹ کے معاملہ کو منمانا اور غیر مناسب بتاتے ہوئے منسوخ کردیا تھا۔ وزیر کمیونی کیشن منوج سنہا نے کہا کہ آٹھ کمپنیوں کے منسوخ ہوئے 122 ٹیلی کمیونی کیشن لائسنس کے بارے میں مستقبل سی بی آئی کے اگلے قدم پر منحصر کرے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟