حلف برداری تقریب کے بہانے شکتی پردرشن
گجرات میں وزیر اعلی وجے روپانی اور ہماچل میں وزیر اعلی جے رام ٹھاکر کی حلف برداری تقریب کو وسیع پروگرام بنا کر بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی بڑھتی طاقت کا پردرشن کیا ہے۔ یہ انعقاد ان ریاستوں میں بھی ماحول بنانے کی کوشش ہے جہاں اگلے برس اسمبلی چناؤ ہونے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی سمیت کیبنٹ کے کئی ممبران اور نتیش کمار سمیت بھاجپا و اتحادی پارٹیوں کے حکمراں18 ریاستوں کے وزرائے اعلی کی شاندار موجودگی این ڈی اے کی سیاسی طاقت کے سامنے بکھری اپوزیشن کو بے اثر بتانے کی کوشش بھی تھی۔ ہماچل پردیش کے ساتھ ساتھ گجرات اسمبلی چناؤ میں بھاجپا کی جیت نے وزیر اعظم نریندر مودی کو سب سے طاقتور بنا دیا ہے۔ اس کا اثر پارلیمنٹ میں بھی کھلے عام دکھائی دینے لگا ہے۔ جیت کے بعد تو پارلیمنٹ کے حالات اور ان کے مطابق ہوگئے ہیں۔ لوک سبھا میں تو اکثریت کے چلتے ان کے اشارے پر ایوان چلتا ہی تھا اب راجیہ سبھا میں بھی وہی ہورہا ہے جو وہ چاہتے ہیں۔ شاید یہ پہلی بار ہوا کہ راجیہ سبھا چیئرمین پارٹی کی جانب سے جواب دے اور کہے کہ پارلیمنٹ سے باہر کے اشو پارلیمنٹ ایوان میں جواب دینے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ دونوں ریاستوں کے اسمبلی چناؤ جیتنے کے بعد بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس، ٹی ایم سی کے علاوہ زیادہ تر بڑی پارٹیاں بھاجپا کی حمایت میں ہیں یا ان کی دوری بھاجپا سے زیادہ کانگریس سے بنی ہوئی ہے۔ جے للتا کے مرنے کے بعد تو 37 ممبران والی انا ڈی ایم کے بھاجپا کی غیرا علانیہ ساتھی جیسی ایوان میں دکھائی دینے لگی ہے۔ یہی حال بیجو جنتادل کا بھی ہے۔ کانگریس بھی لوک سبھا میں کبھی حکمراں فریق کو نہیں گھیر پائی۔اب راجیہ سبھا میں کانگریس نمبروں کی تعداد میں بھاجپا سے پچھڑتی جارہی ہے۔ بھاجپا پردھان امت شاہ بھی راجیہ سبھا پہنچ گئے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بھاجپا کے سابق صدر ایم وینکیانائیڈو نائب صدر جمہوریہ کے ناطے راجیہ سبھا کے چیئرمین بن گئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں راجیہ سبھا میں بھی بھاجپا کی طاقت بڑھتی جائے گی۔ پھر تو لوک سبھا کی طرح راجیہ سبھا میں بھی سرکار اپے حساب سے بل پیش اور پاس کروائے گی۔ کانگریس کے ہر ممبر روز واک آؤ ٹ کررہے ہیں لیکن حکمراں فریق اپنے حساب سے دیر شام تک ایوان کی کارروائی چلا کرکے سرکاری کام کاج نمٹا رہی ہے۔ پارلیمنٹ 5 جنوری تک چلے گی اور اس کے تین ہفتے بعد پھر پارلیمنٹ کا بجٹ سیشن شروع ہوگا۔ ابھی تک پارلیمنٹ میں سرکار گھرتی نہیں دکھائی دے رہی ہے البتہ وہ اپوزیشن کو حاشیے پر لگانے میں لگی ہوئی ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں