آدھار کو ضروری پر سپریم کورٹ کا انترم فیصلہ

عام آدمی کی سہولیات کو آدھار سے جوڑنے کی سپریم کورٹ میں جم کر مخالفت ہوئی ہے۔ عرضی گذاروں نے یہاں تک کہا کہ آدھار کو بینک کھاتوں، موبائل فون اور دیگر اسکیموں سے جوڑنے کا مقصد ہر آدمی کی پرائیویسی کو متاثر کرنا اور جاسوسی کرنا ہے۔ سرکار کا یہ قدم اختیارات کو قبضانے کی طرف لے جائے گا۔ چیف جسٹس دیپک مشرا ، جسٹس کمارسیکری ، اجے خان ولکر اور دھننجے چندرچوڑ اور اشوک بھوشن کی آئینی بنچ کے سامنے عرضی گذاروں کی دلیلوں کے سامنے مرکزی سرکار بیک فٹ پر کھڑی نظرآئی۔ آدھار ایکٹ کا حوالہ دیکر عدالت کو بتایا گیا کہ اس میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ یہ ضروری ہے۔اسے مرضی بتایا گیا ہے۔ پھر بھی مرکزی حکومت نے139 نوٹی فکیشن جاری کرکے لازمی قراردیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر سرکار کھلے عام خلاف ورزی کررہی ہے۔ مرکز کی جانب اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے آئینی بنچ کو بتایا کہ سرکار مختلف خدمات اور فلاحی اقدامات کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے اسے آدھار سے جوڑنے کو ضروری کرنے کی وقت میعاد اگلے سال 31 مارچ تک بڑھانے کے لئے تیار ہے۔ حالانکہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نیا بینک کھاتہ کھولنے کے لئے آدھارکو ضروری بنا رہنا چاہئے۔ 
سرکار نے بینک کھاتوں اور چنندہ مالی لین دین کے ذریعے آدھار اور پین کی جانکاری دینے کو ضروری کرنے کی میعاد 31 مارچ 2018 ء تک بڑھانے سے متعلق نوٹیفکیشن بدھ کو جاری کردیا گیا۔ پرانے بینک کھاتہ یافتگان کو 31 مارچ تک کھاتہ آدھار نمبر کو لنک کرانا ہوگا۔ ای پی ایف کھاتہ، بیمہ پالیسی،میوچول فنڈ کھاتہ وغیرہ 31 مارچ 2018ء تک لنک کرا سکیں گے۔ چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا کی قیاد ت والی پانچ نفری آئینی بنچ نے جمعہ کو اپنے انترم حکم میں آدھار کو موبائل خدمات سے جوڑنے سے متعلق اپنے سابقہ حکم میں بھی تصحیح کی ہے اور کہا کہ 6 فروری کی وقت میعاد کو بڑھا کر 31 مارچ 2018ء کی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ آئینی بنچ آدھار یوجنا کو چیلنج کرنے والی عرضی پر 17 جنوری سے سماعت کرے گی۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کی 9 نفری آئینی بنچ نے کہا تھا کہ آئین کے تحت پرائیویسی کا حق ایک بنیادی حق ہے۔ آدھار کے جواز کو چیلنج کرنے والے کئی عرضی گزاروں نے دعوی کیا کہ یہ پرائیویسی کے حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ بڑی عدالت میں کئی عرضی گزاروں نے آدھار کو بینک کھاتہ اور موبائل نمبر سے جوڑنے کو غیر قانونی اور غیر آئینی بتایا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟