99 کا پھیر ۔۔۔2

گجرات چناؤ کے دوران مختلف مندروں میں جاکر درشن کرنے کی وجہ سے کئی بار سرخیوں میں آئے کانگریس کے صدر راہل گاندھی کے بارے میں اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلی ہریش راوت نے دلچسپ دعوی کیا ہے۔ ہریش راوت کے مطابق سومناتھ مندر کے درشن کرنے پر بابا کی کانگریس پر بڑی مہربانی ہوئی اور کانگریس سومناتھ علاقہ کی چاروں سیٹوں پر کامیاب رہی۔ کانگریس بھلے ہی گجرات میں 22 برسوں سے اقتدار پر قابض بھاجپا کو ہرا نہ پائی ہو لیکن کانگریس اور اس کے لیڈر راہل گاندھی نے گجرات میں مقامی اشو اور ترقی کا مسئلہ کچھ یوں اٹھایا کہ گجرات میں کانگریس ہار کر بھی اخلاقی طور سے جیت گئی۔ جس طرح سے راہل گاندھی گجرات میں لوگوں کا بھروسہ جیتنے میں کامیاب رہے اس کا فائدہ آنے والے وقت میں اپوزیشن کی ایکتا کو بنائے رکھنے اور مودی کو چنوتی دے سکتے ہیں۔ اپوزیشن کے ایک سینئرلیڈر کا کہنا تھا کہ گجرات چناؤ میں راہل کو پکا لیڈر بنا دیا ہے اور اپوزیشن کو چہرہ مل گیا ہے۔ نوٹا نہ ہوتا تو فائدے میں رہتی کانگریس۔ گودھرا میں بی جے پی کے راؤل جی نے258 ووٹ سے کانگریس کے راجندر سنگھ پرمار کو ہرایا۔ اس سیٹ پر 3050 ووٹ نوٹا کو ملے۔ دھولکا میں بی جے پی کے بھکتے سنگھ چوڈسما نے کانگریس کے اشون بھائی راٹھور کو 327 ووٹ سے ہرایا جبکہ نوٹا کو ملے 2347 ووٹ۔ بوٹان میں بی جے پی سے کانگریس یہ سیٹ 906 ووٹ سے ہاری۔ یہاں نوٹا کو 1334 ووٹ ملے۔ اسی طرح کم سے کم چار اور سیٹوں پر امریڈ ،ڈانگ، دیودار اور کپراڑا میں نوٹا نے کانگریس کا کھیل بگاڑ دیا۔ ادھر کے نیتاؤں کے بھروسے گجرات کی چناوی جنگ جیتنے نکلی کانگریس کے ہاتھ اقتدار کی بھاگ ڈور تو نہیں لگی لیکن کانگریس کے کندھے پر پاؤں رکھنے والے ان لیڈروں کی سیاست ضرور چمک گئی۔ کانگریس کو سہارا دے کر کھڑا کرنے والے الپیش اور جگنیش نے خود تو چناؤ جیت لیا لیکن دیگر سیٹوں پر کانگریس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔ تو کیا گجرات اسمبلی چناؤ نتائج نے ای وی ایم تنازعہ کو پوری طرح ختم کردیا ہے۔ ای وی ایم پر اٹھے سوال نتیجے تو یہی نکال سکتے ہیں کہ چناؤ کمیشن نے اس بار پہلی مرتبہ گجرات میں سبھی182 سیٹوں پر وی وی پیٹ کا استعمال کیا تھا جس کے تحت ہرووٹر کو ووٹ ڈالنے کے بعد پرچی ملی۔ اپوزیشن لگاتار ای وی ایم کے جواز پر سوال اٹھا رہی ہے اور چناؤ کمیشن کے ذریعے بیلٹ پیپر سے چناؤ کروانے کی مانگ پر اڑی ہوئی ہے۔ گجرات چناؤ نتائج کے بعد یہ تنازعہ ختم ہوجانا چاہئے۔ اس بار کئی معنوں میں چناؤ اہم تھا۔ یہ کسی ایک ریاست کا عام اسمبلی چناؤ نہیں تھا بلکہ اس بار بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا تھا۔ کانگریس اس بات سے تشفی حاصل کرسکتی ہے کہ لوک سبھا چناؤ 2014 کے مقابلے اس بار بی جے پی کا ووٹ فیصد 10 فیصدی سے کم کرنے میں کامیاب رہی تو بی جے پی اس بات پر تشفی کرسکتی ہے کہ ناراض ووٹ کے باوجود وہ 2012 سے زیادہ ووٹ حاصل کرپانے میں کامیاب رہی۔ جس کانٹے کے مقابلہ میں بی جے پی نے گجرات میں جیت حاصل کی اس سے وہاں کی سیاست ہمیشہ کے لئے بدل جائے گی۔ برسوں بعد ریاست کا چناؤ مذہبی پولرائزیشن سے ہٹ کر ذات پات کے تجزیئے میں بدل گیا ساتھ ہی بھلے ہی نتیجوں کے بعد بی جے پی صدر امت شاہ اس چناؤ کو کانٹے کی ٹکر ماننے سے انکار کررہے ہوں لیکن بی جے پی کے لئے جیت کے ساتھ ہی چناؤ ایک وارننگ بھی ہے۔ اس ریزلٹ نے بی جے پی کو یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ گجرات کے دیہاتی علاقوں میں اپنی پکڑ مضبوط کرنا اس کے لئے بڑی چنوتی ہے۔ جس طرح کانگریس نے اس بار وزیر اعظم اور بی جے پی پردھان امت شاہ کے آبائی علاقہ میں گھس پر اپنی کارکردگی بہتر کی ہے اس سے یہ صاف ہے کہ اگر بی جے پی گجرات میں کامیاب ہوئی ہے تو وہ صورت (16 میں سے15 ) سیٹ، بروڈہ میں سے (10-9 )سیٹ، راجکوٹ میں (8 میں سے 6) سیٹ کی وجہ سے ان کا ٹوٹل بنا ہے 53 میں سے 46 سیٹیں بی جے پی جیتی۔ اگر ہم ان بڑے شہروں کو نکال دیں تو باقی بچیں127 سیٹیں ان میں بی جے پی صرف 53 سیٹیں ہیں جیت پائی جبکہ کانگریس 71 سیٹوں پر کامیاب رہی۔لب و لباب یہ ہے کہ سورت، بڑودہ و راجکوٹ نے بھاجپا کی لاج بچائی۔ دیہاتی علاقو ں میں نوٹ بندی، جی ایس ٹی کا برا اثر صاف نظر آیا ہے۔ بی جے پی کے لئے یہ بات تشویش کی ہونی چاہئے۔ کانگریس نے جس طرح سے گجرات میں ٹھیک ٹھاک کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ریاست میں اس کے نیتاؤں کے حوصلہ بلند ہیں۔ ایسی حالت میں بی جے پی کو 2019 کے چناؤ کے لئے فوراً تیاری شروع کرتے ہوئے ناراض فرقوں کے لئے راحت کا انتظام کرنا ہوگا۔(ختم)
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!