گجرات میں بی جے پی سے زیادہ نریندر مودی کی جیت ہے

گجرات چناؤ میں ایک وقت ایسا لگ رہا تھا کہ کانگریس اور بھاجپا کی کافی قریبی ٹکر ہے۔ کانگریس اس چناوی جنگ میں کافی مضبوطی سے سامنے آئی اور راہل گاندھی کی تابڑ توڑ کوششیں رنگ لاتی دکھائی دیں۔ شاید وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی یہ احساس ہوگیا تھا کہ بازی ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔ بی جے پی نے ہماچل پردیش میں بھی آسان جیت درج کی۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی نے اپنے حکمرانی کے دائرہ میں ایک اور ریاست کو جوڑ لیا۔ بیشک بی جے پی نے ہماچل اور گجرات میں جیت کا سلسلہ جاری رکھا لیکن ہمارا خیال ہے کہ یہ جیت پارٹی سے زیادہ وزیر اعظم نریندر مودی کی جیت ہے۔ ہماچل پردیش میں بی جے پی کی جیت کو لیکر کسی کو بھی شک نہیں تھا۔ ویسے بھی ہماچل پردیش کی تاریخ رہی ہے یہاں پانچ سالوں میں سرکاریں بدلتی ہیں۔ پردیش کے پانچ برسوں کا فطری طور سے بی جے پی کے پالے میں جانا تھا لیکن گجرات میں بی جے پی کی جیت معنی رکھتی ہے۔ گجرات میں بی جے پی کے خلاف کئی اشو تھے۔ 22 سالوں کی اقتدار مخالف لہر، ہاردک پٹیل کی لیڈر شپ میں پاٹیداروں کی تحریک، جگنویش میوانی کی رہنمائی میں دلتوں کی تحریک، پسماندہ برادری کے ٹھاکر کی ناراضگی تھی جس کی قیادت الپیش ٹھاکر کررہے تھے۔ سورت اور گجرات کے کئی دیگر شہروں میں جی ایس ٹی اور نوٹ بندی سے تاجر ناراض تھے۔ گجرات میں نریندر مودی کا نہ ہونا بھی بی جے پی کے خلاف جا رہاتھا لیکن سارے برعکس حالات کو بی جے پی کنارہ کرتے ہوئے ایک بار پھر گجرات میں کامیابی حاصل کرلی۔ حالانکہ 2012ء میں پارٹی کو 115 سیٹیں ملی تھیں اس مرتبہ99 پر ہی سمٹ گئی۔ بیشک اس بار بی جے پی کے ووٹ شیئر میں معمولی اضافہ ہوا ہے 2012ء میں بی جے پی کا ووٹ شیئر 48.30 فیصدی تھااس بار49.1 فیصدی ہے۔ بی جے پی کے حق میں آخر کونسے عوامل تھے جس سے اسے جیت ملی؟ وزیر اعظم نریندر مودی نے آخری دو ہفتوں میں کافی جارحانہ چناؤ کمپین کی جس سے منقسم ووٹروں نے جو کانگریس کے حق میں ووٹ ڈالنے کا من بنا چکے تھے اس کے بعد انہوں نے پولنگ سے ٹھیک پہلے مودی کے حق میں ووٹ ڈالنے کا فیصلہ لے لیا۔ مودی کی کمپین کے بعد بی جے پی کے حق میں ووٹ پولنگ کا رخ بڑے سطح پر ٹکا ہوا تھا۔ سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ گجرات میں قریب 33 فیصد ووٹروں نے پولنگ کے کچھ دن پہلے اپنا ذہن بنا لیا تھا۔ شروعات کے کچھ ہفتوں میں کانگریس نے جارحانہ کمپین چلائی تھی کانگریس کی کمپین کے سبب بی جے پی بیک فٹ پر نظر آرہی تھی۔ لیکن جب نریندر مودی نے بھی جارحانہ کمپین شرو ع کی تو کانگریس کی چناوی مہم پر بھاری پڑنے لگی۔ منی شنکرایر کے تبصرہ کے بعد مودی کی چناوی کمپین کو اور رفتار مل گئی۔ ایر کے نیچ والے تبصرہ کے بعد بی جے پی پوری طرح سے حملہ آور ہوگئی تھی۔ مودی نے منی شنکر ایر کے بیان کو گجراتی وقار اور پہچان سے جوڑدیا۔ اس کے بعد کانگریس چناوی کمپین میں بی جے پی کے مقابلہ بیک فٹ پر آگئی اور اس نے جو بی جے پی کے خلاف ماحول بنایا تھا اسے بھاری دھکا لگا۔کانگریس نے ہاردک پٹیل، جگنیش میوانی، الپیش ٹھاکر اور باسوا جیسے مختلف فرقہ کے نیتاؤں کے ساتھ اتحاد کی کوشش کی جس کے نتیجہ نے پچھلے چناؤ کے برعکس ان فرقے کے کچھ ووٹ کانگریس کو زیادہ ملے۔ پاٹیداروں کے زیادہ تر لوگ بی جے پی کو ملے حالانکہ اس تبدیلی سے کانگریس جیت کا ذائقہ نہیں چکھ پائی۔ کانگریس کو امید تھی کہ پاٹیداروں کے ووٹ اس کے حق میں جائیں گے لیکن چناؤ کے بعد ہوئے سروے سے پتہ چلا ہے کہ پاٹیداروں کے 40 فیصدی سے بھی کم ووٹ کانگریس کو ملے جبکہ بی جے پی 60 فیصدی پاٹیداروں کے ووٹ پانے میں کامیاب رہی۔ جگنیش میوانی کے ساتھ اتحاد بھی کانگریس کے لئے کام نہیں کرسکا۔ 47 فیصدی دلتوں کے ووٹ کانگریس کو ملے جبکہ بی جے پی 45 فیصدی دلت ووٹ پانے میں کامیاب رہی۔ اس طرح او بی سی ووٹ بھی کانگریس اور بی جے پی کے درمیان بٹ گیا۔ پاٹیداروں کے بٹے ووٹ کی بھرپائی بی جے پی نے آدیواسی ووٹوں سے کرلی۔ 52 فیصدی آدی واسی ووٹ بی جے پی کو گئے وہیں 40 فیصدی آدیواسیوں کے ووٹ کانگریس کو گئے۔ ویسے بھی بی جے پی کی گجرات میں ایک اور چناؤ جیتنے کے لئے اور کانگریس سے ہماچل چھیننے کے لئے خوش ہونا چاہئے لیکن ان کامیابیوں کا یہ مطلب نہیں ہے کہ گجرات میں حکمراں پارٹی کے اندر سب ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔ کل ملا کر دونوں ریاستوں میں ووٹروں کی ایک بڑی تعداد ہے جو سرکار کی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسی پالیسیوں سے غیر مطمئن ہے۔ کسان حکومت سے خفا ہے کیونکہ وہ ان کی مشکلوں کا حل نکالنے کے لئے ضروری کوشش نہیں کررہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان سب کے باوجود ایک بڑی آبادی نے کانگریس کو ووٹ نہیں دیا اور برعکس ماحول کے باوجود اگر گجرات میں بی جے پی جیتی تو اس کا سارا سہرہ وزیر اعظم نریندر مودی کو جاتا ہے۔ ان کی تابڑ توڑ کوششیں رنگ لائیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟