بہار میں سیاسی زلزلہ کے وہ تین گھنٹے

بہار میں جو سیاسی بھکمپ آیا وہ کسی ہندی فلم سے کم نہیں تھا۔محض تین گھنٹے میں بہار کا سیاسی پس منظر بدل گیا۔ نتیش کمار بہار کے وزیر اعلی کے عہدے سے استعفیٰ دینے گئے اور پھر یہ خبر بدھوار کو ساڑھے چھ بجے کے آس پاس آنی شروع ہوگئی تھی۔ جنتادل یونائیٹڈ کی اسمبلی پارٹی کے نیتاؤں کے ساتھ میٹنگ کے بعد نتیش کمار میڈیا سے بات کرتے دکھائی دئے لیکن اس سے پہلے انہوں نے سیدھا راج بھون کا رخ کیا۔ قیاس آرائیوں کا دور لمبا نہیں چل پایا کیونکہ محض آدھے گھنٹے کے اندر میڈیا کو نتیش نے جانکاری دی کے میں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ نتیش کمار نے اپنے استعفے کے اعلان میں لالو پرساد یادو کو نشانے پر لیا۔ انہوں نے کہا دھن سمپتی غلط طریقے سے اکھٹی کرنے کا کوئی مطلب نہیں۔ کفن میں کوئی جیب نہیں ہوتی ہے، کوئی لیکر نہیں جاتا۔ ظاہر ہے لالو یادو پر جس طرح سے کرپشن کے معاملہ چل رہے ہیں، آمدنی سے زیادہ املاک بنانے کا الزام لگتے رہے ہیں ، اسے نتیش نے زور دار طریقے سے جنتا کے سامنے رکھا۔ نتیش کمار نے ان سب کے درمیان نریندر مودی سرکار کو حمایت کا معاملہ چاہے نوٹ بندی کا ہو ،چاہے صدارتی چناؤ ہو اس پر اپنی حکمت عملی کو بھی صحیح ٹھہرایا۔ حکمت عملی کی بات کریں تو ماسٹر اسٹروک تو پردھان منتری نریندر مودی کا تھا۔ مودی نے بہار میں جے ڈی یو ۔ آر جے ڈی اتحاد کو ختم کرنے کے ساتھ ہی اپوزیشن کے قومی سطح پر مہا گٹھ بندھن کھڑا کرنے کے امکانات کو بھی زبردست جھٹکا دیا ہے۔ مودی کئی دنوں سے نتیش کمار کے آگے چارا ڈال رہے تھے آخر کار بدھوار کو ان کی کوشش کامیاب ہوئی جب نتیش نے آر جے ڈی گٹھ بندھن سے باہر نکلتے ہوئے وزیر اعلی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور اگلے دن ہی بھاجپا کے تعاون سے نئی سرکار بنالی۔ نریندر مودی کی کانگریس مکت بھارت اور پورے دیش کو بھگوا کرنے کا سپنا کافی حد تک کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس وقت پورے دیش میں بھاجپا اور اس کے حمایت سے17 راجیوں میں سرکار ہے جبکہ کانگریس محض 5 راجیوں میں ہی سمٹ کر رہ گئی ہے۔ بہار میں گٹھ بندھن ٹوٹنے کے بعد کانگریس گھٹ کر 4 راجیوں میں رہ جائے گی اور بھاجپا کا آنکڑہ بڑھ کر 18 ہوجائے گا۔ آر جے ڈی چیف لالو یادو کا الزام تو ہے ہی کہ سیاسی جانکاروں کے مطابق بدھوار کے سیاسی واقعہ کے پوری کہانی طے تھی۔ سابق گورنر رامناتھ کووند کے استعفے کے بعد بہار کا ایڈیشنل چارج بنگال کے گورنر کیسری ناتھ ترپاٹھی کے پاس ہے۔ انہیں بدھوار کو پٹنہ میں نہیں رہنا تھا۔ وہ خاص طور پر دوپہر کو وہاں پہنچے اور اسمبلی پارٹی کی میٹنگ کے بعد نتیش نے جب انہیں اپنا استعفیٰ سونپا تو انہوں نے فوراً منظور کرلیا۔ انہوں نے جے ڈی یو ممبران اسمبلی کی میٹنگ سے پہلے ہی گورنر سے وقت لیا تھا۔ اس کے چند منٹ بعد پی ایم مودی نے ٹوئٹ کر مبارکباد دی اور نتیش کو ساتھ آنے کی دعوت دے دی۔ مانا جارہا ہے کہ نتیش کا قد بڑھانے کے لئے ایسا کیا گیا ہے۔ گٹھ بندھن سرکار میں نائب وزیر اعلی رہے تیجسوی یادو نے پورے واقعہ پر سوال اٹھاتے ہوئے بدھوار کی رات 1 بجکر 20 منٹ پر ٹوئٹ کیا کہ گورنر نے ہمیں صبح 11 بجے کا وقت دیا تھا اور اچانک این ڈی اے کو 10 بجے حلف برداری کے لئے کہہ دیا گیا۔ اتنی جلدی کیا ہے شری ایماندار اور نیتک جی؟ تو کیا لالو کا الزام صحیح ہے کہ نتیش اور بھاجپا اتحاد پہلے سے ہی تھا۔ بھاجپا نتیش کے ساتھ کسی ڈیل کے تحت مہا گٹھ بندھن کو نہ صرف بہار میں ہی توڑنا چاہتی تھی بلکہ قومی سطح پر مہا گٹھ بندھن کے فروغ کو روکنا بھی چاہ رہی ہے۔ نتیش کمار کو مہرہ بنا کر بھاجپا نے اپنی حکمت عملی کو کامیابی دلا دی۔ بھاجپا ۔ جے ڈی یو اتحادی سرکار بنانے سے صاف ہے کہ یہ سب اچانک نہیں بلکہ پہلے سے طے حکمت عملی کے تحت ہوا۔ سیاستداں وہی ہوتا ہے جو آنے والے خطرے کی آہٹ سمجھ لے۔ زیادہ سیٹ ملنے کے باوجود آر جے ڈی ، جے ڈی یو کے ساتھ ساتھ چھوٹا بھائی والے برتاؤ سے دکھی تھا۔ نتیش نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں میرے لئے کام کرنا مشکل تھا۔ آر جے ڈی چیف لالو پرساد یادو چاہتے تھے کہ میں انہیں سنکٹ سے نکالوں لیکن وہ سنکٹ ان کے خود کا لایا ہوا تھا۔ آر جے ڈی منتری میری کوئی بات نہیں سنتے تھے۔ وہ لالو کو رپورٹ کرتے تھے۔ ادھر لالو نے نتیش پر کئی الزام لگائے ہیں۔ نتیش قتل کے ملزم ہیں، لالو کا کہنا ہے زیرو ٹالیرینس والے پر 320 کا کیس ہے۔ 1991 ء میں قتل کا کیس لگا یہ نتیش کے چناؤ مشن میں دئے گئے حلف نامے میں ہے۔ کرپشن سے بڑا ہے ظلم کا کیس کو اسٹے کرادیا گیا۔ اب ہائی کورٹ میں معاملہ چل رہا ہے۔ اس سے انہیں عمر قید یا پھانسی کی سزا ہوسکتی ہے۔ اس لئے نتیش نے بھاجپا کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کر مہا گٹھ بندھن کو توڑا۔ تازہ واقعہ کے بعد لالو اور تیجسوی یادو کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟ نتیش کے بھاجپا کے ساتھ ہاتھ ملانے کے بعد لالو کے لئے قومی سیاست میں خود کو سنجیدہ بنائے رکھنا آسان نہیں ہوگا۔ تمام کرپشن کے مقدموں میں گھرنے کے بعد لالو کے سامنے اب زیادہ سیاسی متبادل بھی نہیں بچا ہے۔ ایسے میں اب یہ طے ہوگا کہ لالو 27 اگست کی ریلی کرپاتے ہیں یا نہیں؟ اس ریلی میں انہوں نے تمام اپوزیشن پارٹیوں کے نیتاؤں کو بلایا ہے۔ پھر اس بات کی بھی قیاس آرائیاں لگائی جارہی ہیں کہ حالیہ صورتحال میں کانگریس کا کیا رخ ہوتا ہے۔ راہل گاندھی ۔نتیش پر بڑا بھروسہ کرتے تھے۔ مودی کی بھاجپا کے خلاف 2019ء کی تیاری میں وہ اپوزیشن کی طرف سے نتیش کو اہم ذمہ داری میں رکھنا چاہتے تھے۔ کانگریس ابھی اس سوال کا جواب نہیں دے پارہی ہے کہ اس کی مستقبل کی حکمت عملی کیا ہے۔
بہار کا یہ واقعہ 2019ء کے لوک سبھا چناؤ سے پہلے اپوزیشن کے اتحاد کو بڑا جھٹکا تو ہے ہی، کرپشن کے خلاف مہا گٹھ بندھن کو توڑ کر نتیش نے اپنی سیاسی زندگی کا ایک بڑا داؤں بھی کھیلا ہے۔ مہا گٹھ بندھن سے الگ ہونے کے لئے نتیش نے ضمیر کی آواز اور اخلاقیات کی دلیل دی۔ ایسا کرکے انہوں نے ہمدردی بھی پا لی۔ لالو اپنے بیٹے کا استعفیٰ دلا کر اسے حاصل کرسکتے تھے یہ اس لئے بھی نتیش کا سیاسی ٹیلنٹ کہا جائے گا کیونکہ انہوں نے اقتدار بھی نہیں گنوایا اور قومی پس منظر پراپنا قد بھی بڑھا لیا۔وہ خود کو ایسے نیتا کے طور پر پیش کرنے میں بھی کامیاب رہے جو کرپشن کو لیکر سنجیدہ نظر آتا ہے۔ دوسری طرف لالو یادو ایک بار پھر خود کو اقتدار کے گلیاروں سے باہر پا رہے ہیں۔ جہاں تک بہار کی جنتا کا سوال ہے اسے لگتا ہے کہ لالو فیکٹر کے ہٹنے سے بہار کو صاف ستھرا انتظامیہ ملے گا۔ کرپشن اور جنگل راج سے آزادی ملے گی۔ خیال رہے کہ نتیش نے بھاجپا کے ساتھ نہ صرف کہیں زیادہ کھل کر سرکار چلائی بلکہ بہار کو دردشا سے باہر نکالنے میں بھی کامیابی پائی تھی۔ حالانکہ اس واقعہ سے خودساختہ سیکولر طاقتیں ،تمام اپوزیشن کو تھوڑی سے پریشانی ہوگی لیکن سچ تو یہ ہے کہ وہ اور زیادہ بے سمت اورکمزور دکھائی دینے لگی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!