دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ پاکستان

دہشت گردی کے اشو پر پاکستان کو گھیرنے کی بھارت کی مہم کو بدھ کے روز اس وقت بڑی کامیابی ملی جب امریکہ نے آخر کار پاکستان کو دہشت گردی کا سرپرست دیش اعلان کرہی دیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کی سالانہ رپورٹ ’کنٹری رپوٹ آن ٹیررازم ‘ میں کہا گیا ہے کہ لشکر طیبہ ، جیش محمد جیسی دہشت گرد تنظیمیں پاکستان سے اپنی سرگرمیاں چلا رہی ہیں۔ یہ تنظیمیں وہاں دہشت گردوں کو ٹریننگ دیتی ہیں، حملے کرواتی ہیں اور کھلے عام چندہ اکھٹا کرتی ہیں۔ یہ ہی الزام بھارت بھی بار بار لگاتا رہا ہے اب امریکہ نے اس کی تصدیق کردی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں لگاتار آتنکی حملے ہورہے ہیں ان میں پاک میں واقع آتنکی تنظیموں اور نکسلیوں کے ذریعے کئے جانے والے حملہ شامل ہیں۔ بھارت جموں و کشمیر میں ہونے والے آتنکی حملوں کے لئے پاکستان کو ذمہ دار بتا رہا ہے۔جنوری میں بھارت کے پٹھانکوٹ میں فوجی ایئر بیس پر آتنکی حملہ ہواتھا۔ بھارت نے اس کا الزام جیش محمد پر لگایا۔ 2016 میں حکومت ہند نے امریکہ کے ساتھ انسداد دہشت گردی تعاون کا ایک رشتہ بنانے اور اطلاعات کو شیئرکرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت سرکار آئی ایس آئی ایس جیسی آتنکی تنظیم اور ہندوستانی برصغیر میں القاعدہ کے خطرے پر بھی قریبی نظر رکھ رہی ہے۔ یہ تنظیم اپنے آتنکی پروپگنڈے کے ذریعے بھارت کو دھمکیاں دیتی ہی ہیں۔ بھارت میں آئی ایس آئی ایس سے جڑے اور حملہ کی سازش تیار کرنے کے الزام میں کئی گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔ ممبئی آتنکی حملہ کا ماسٹر مائنڈ اور اقوام متحدہ کے ذریعے آتنکی قرار حافظ سعید پاکستان میں اب بھی ریلیاں کررہا ہے جبکہ فروری 2017 میں پاکستان میں انسداد دہشت گردی قانون کے تحت اس پر پابندی لگا رکھی ہے۔ امریکہ کے ذریعے دہشت کے پناہ گاہ دیشوں کی فہرست میں شامل ہونے والا پاک 13واں ملک ہے۔ اس فہرست میں افغانستان، صومالیہ، جنوی فلپئن، مصر، عراق، لبنان، لیبیا، یمن، کولمبیا اور وینزویلا وغیرہ دیش شامل ہیں حالانکہ امریکی قدم سے پاکستان پر دہشت گردی کے خلاف کارروائی کا دباؤ ضرور پڑے گا لیکن اس سے پاک پوری طرح دہشت گردی پر نکیل کسے گا اس میں شبہ ہے۔ دراصل امریکی کانگریس پاکستان کو دہشت گرد دیش قرار دینے کے حق میں تھا لیکن ٹرمپ حکومت نے دو قدم آگے اور ایک قدم پیچھے کا ڈپلومیٹک اشارہ دے دیا ہے۔ اب یہ دیکھنا ہوگا پاک امریکہ کے دباؤ میں کتنا آتا ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی کی پناہ گاہ اعلان کرکے امریکہ نے سیاسی اور ڈپلومیٹک رشتوں کا راستہ کھولے رکھا ہے تاکہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک پر کارروائی کی گنجائش بنی رہے۔ دیکھنا ہوگا کہ پاک اب لشکر و جیش پر کتنی بھروسے مند کارروائی کرتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟