سینٹری نیپکن جیسی ضروری چیز پر 12% جی ایس ٹی

دنیا بھر کے ترقی یافتہ مکوں میں سینٹری پیڈ کو ہیلتھ پروڈکٹ مانا جاتا ہے۔ امریکہ میں تو اسے میڈیکل ڈیوائز مانا گیا ہے۔ یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن اس پر نگرانی رکھتی ہے۔ اسے کئی کوالٹی ٹیسٹ پاس کرنے پڑتے ہیں جبکہ بھارت میں اسے تولئے اور پینسل کی طرح مسلینیس آئٹم کی کٹگری میں رکھا گیا ہے۔ ہمارے دیش میں قریب 47 فیصد مہلائیں ہیں یہ ان کے لئے سب سے ضروری چیز ہے لیکن سرکار اسے مسلینیس کے کیٹگری میں رکھ کر 12% جی ایس ٹی لگا رہی ہے اس کی دیش بھر میں مخالفت ہونا فطری ہے۔ سب سے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خزانہ ارون جیٹلی کو اس کے احتجاج میں ویڈیو بھیجنے والی ون شری وینکٹ کا کہنا ہے کہ آج بھی دیہی علاقوں میں عورتوں اور لڑکیوں میں سینیٹری پیڈ استعمال کرنے کی عادت نہیں ہے ایسے میں انہیں بیدار کرنا ہے تو فری میں پیڈ دستیاب کرانا ہوگا اسے میں 12 فیصد ٹیکس دینا غلط ہے۔ اگر سرکار فری نہیں دے سکتی تو اس پر سبسڈی تو دے سکتی ہے۔ اس پر جی ایس ٹی واپس کرنا چاہئے۔ اس معاملہ میں نیشنل وومن کمیشن کی چیئرمین للتا کمار منگلم کہتی ہیں کہ سیلف ہیلتھ گروپ کے بنائے گئے پیڈ پر جی ایس ٹی بالکل بھی نہیں ہونا چاہئے لیکن ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے کبھی یہ چھوٹ کچھ شرطوں کے ساتھ ہی ہونی چاہئے۔ گاؤں میں محض نیپکن دستیاب کرائیں اور عورتوں کو بیدار بھی کریں ساتھ ہی پروڈکٹ کی کوالٹی بھی چیک کرنی چاہئے۔ آسام سے ممبر پارلیمنٹ سشمتا دیو کہتی ہیں کہ سینٹری نیپکن پر اتنا زیادہ جی ایس ٹی لگانے کا مطلب ہے اس کا استعمال کرنے کے تئیں عورتوں کا حوصلہ توڑنا۔ نیشنل ہیلتھ مشن کے تحت چل رہی اسکیم کو مضبوط کیا جانا چاہئے۔ سرکار کا یہ فیصلہ بالکل غلط ہے۔ عورتوں کی اس مانگ سے خود مرکزی وزیر مینکا گاندھی بھی اتفاق رکھتی ہیں۔ انہوں نے کہا ہم نے اس کو لیکر وزیر خزانہ کو کئی بار خط لکھا ہے یہی نہیں اس کے خلاف چل رہی کمپین کا بھی ذکر کیا ہے۔ سرکار کو اس قدم کے بارے میں نظرثانی کرنی چاہئے۔وومن آگنائزیشن کے تحت کام کرنے والی این جی او شی سیز نے عدالت میں بھی اس قدم کو چنوتی دی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مسلینیس کی کیٹگری سے نیپکن کو نکال کر بیسک ضرورتوں کی فہرست میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس معاملہ کی سماعت 24 جولائی کو تھی لیکن پتہ نہیں چل سکا کہ عدالت نے اس معاملہ پر کیا رخ اپنایا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق دیش کی 49.7 کروڑ خواتین میں سے قریب 88 فیصد عورتیں (قریب 43.7) سینیٹری پیڈ کا استعمال نہیں کرتی۔ وہ اس کی جگہ پھٹے پرانے کپڑے اور دیگر چیزوں کا استعمال کرتی ہیں۔ سینٹری نیپکن کوجی ایس ٹی سے مستثنیٰ کیا جانا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟