رائے سیناہل پر رام
بیشک بھاجپا کے رامناتھ کووند دیش کے 14 ویں صدر چن لئے گئے ہیں اور ان کی کامیابی یقینی ہی تھی لیکن انہیں صرف 65.65 فیصد ہی ووٹ ملے۔ یہ 44 سال میں کسی صدر کو ملا سب سے کم ووٹ شیئر بھی ہے۔ اس سے پہلے 1974 میں کانگریس کے فر خ الدین علی احمد کو 56.23 فیصد ووٹ ملے تھے۔ کووند کو 25 جولائی کو صدر کے عہدے کا حلف دلایا جائے گا۔ ان کی جیت بھلے ہی کم ووٹ سے ہوئی ہو لیکن وینکیانائیڈو کے نائب صدر چنے جانے کے بعد بھاجپا کو پہلی بار اپنا راشٹرپتی ملا ہے اور بھاجپا 33 سال پہلے کانگریس جتنی مضبوط ہوجائے گی۔ صدر اور نائب صدر بھاجپا کے ہوں گے۔ لوک سبھا میں اکثریت بھی ہے ،17 ریاستوں میں اس کی حکومتیں بھی ہیں۔1984 میں 4 سیٹیں جیت کر راجیو گاندھی نے کانگریس حکومت بچائی تھی تب 17ریاستوں میں کانگریس کی سرکار ہوا کرتی تھی۔ صدر گیانی زیل سنگھ اور نائب صدر وینکٹ رمن بھی کانگریسی تھے۔ رامناتھ کووند اترپردیش کے پہلے صدر ہیں۔ اس کے پہلے دیش میں 13 صدر ہوئے ان میں تیسرے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین ضرور اترپردیش کے تھے لیکن بنیادی طور سے وہ آندھرا پردیش کے حیدر آباد کے ایک بڑے زمیندار خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ اخبار پڑھنے والوں یا ٹی وی دیکھنے والوں کے لئے بھلے ہی رامناتھ کووند کا نام زیادہ ناواقف رہا ہو لیکن بھاجپا کے بھروسے مند کو خبروں میں رہنا پسند نہیں اور وہ لو پروفائل شخصیت ہیں۔ اترپردیش کے کانپور دیہات کے فاروق گاؤں میں واقع ان کے اپنے آبائی گھر میں جشن کا ماحول ہونا فطری ہی ہے۔ کووند 71 سال کے ہیں اور صدر چنے گئے ہیں۔ بھاجپا کے پہلے ممبر اور دلت نیتا ہیں۔ یوپی کے دلت فرقے سے آنے والے رامناتھ کووند کو دیش کے سپریم عہدے پر پہنچا کر بھاجپا نے 2019 کے عام چناؤ کے لئے چناوی تجزیوں کی بنیاد بھی تیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ نو منتخب صدر کووند اب بھلے ہی بھاجپا کے سرگرم نیتا نہ رہے ہوں لیکن درپردہ طور سے بھاجپا کے سب سے بڑے دلت چہرہ بن گئے ہیں۔بھاجپا کی چناوی حکمت عملی میں دلت اور پسماندہ تجزیہ سب سے اوپر ہے۔ دونوں سپریم عہدوں پر دلت اور پسماندہ طبقے کے نیتا اس کی نئی پہچان بنتے جارہے ہیں۔ رامناتھ کووند کے لئے بیشک یہ جیت آسان تھی لیکن آگے کی چنوتیاں یقینی طور سے اتنی آسان نہیں ہوں گی۔ سب سے بڑی چنوتی تو یہ ہے کہ انہیں سیاست کے منجھے ہوئے دانشور لیڈر پرنب مکھرجی کی جگہ لینی ہے۔ پانچ سال پورے ہونے کے عہد میں ایسا کوئی موقعہ شاید نہیں آیا جب پرنب مکھرجی کے کسی فیصلے کو انگلی اٹھانے کا موقعہ ملا ہو جبکہ وہ ایک ایسے دور میں صدر رہے جب دیش میں بہت بڑا تبدیلی اقتدار ہوا ۔ اس پورے دور میں انہوں نے نہ صرف ایک مثالی صدر کی ساکھ بنائی ہے بلکہ جہاں ضرورت پڑی حکومت کو آگاہ کرنے کا کام بھی کیا لیکن رامناتھ کووند کا پورا سیاسی سفر جس طریقے سے بلا تنازعہ رہا اسے دیکھتے ہوئے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ان چنوتیوں پر کھرے اتریں گے اور چنوتیاں کووند کے لئے بھی کم نہیں ہوں گی۔
سب سے اہم اشو جو مستقبل قریب میں سامنے آئے گا وہ ہے ایودھیا میں رام مندر کا اشو۔معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں ہے۔ عدالت کہہ چکی ہے کہ دونوں فریق کو عدالت کے باہر سمجھوتہ کرلینا چاہئے حالانکہ فی الحال تو اس کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔ ایودھیا تنازعہ میں سپریم کورٹ نے اگر بھاجپا کی امیدوں کے الٹ کوئی فیصلہ دیا تو سرکار اس کے مطابق کوئی آئینی قدم اٹھا سکتی ہے۔ ایسے میں راشٹرپتی بھون بڑا سہارا رہے گا۔ بھاجپا مذہب کی بنیاد پر سول کورٹ کی شروع سے ہی مخالفت کرتی رہی ہے۔ اترپردیش اسمبلی چناؤ کے دوران تین طلاق بڑا اشو بنایا تھا۔ اس معاملہ میں 2019 کے چناؤ سے پہلے کوئی بل لایا جاسکتا ہے اور لوک سبھا میں بھاجپا کی اکثریت ہے لیکن راجیہ سبھا میں 49 ووٹ کم پڑیں گے۔ اگر راجیہ سبھا میں وینکیا اتحادی پارٹیوں کی حمایت سے بل پاس کروانے میں اہل ہوئے تو صدر بھی کوئی اڑچن نہیں پیدا کریں گے۔ حالانکہ راشٹرپتی چناؤ کے معاملے میں کوئی اشو نہیں ہوتا لیکن اس عہدے کے لئے دونوں امیدوار کا دلت طبقہ سے ہونے سے دلتوں کی امیدیں بڑھ گئی ہیں۔ نامزد صدر کووند پورے دیش کے مکھیا ہیں کسی طبقہ خاص کے نہیں اس لئے انہیں صرف دلت طبقہ کے نیتا کی شکل میں اب نہیں دیکھا جاسکتا۔ لیکن پھر بھی ان کے صدر بننے سے ایک فرق تو پڑے گا کے دیش کا دلت طبقہ اس میں اپنی طاقت کی جھلک دیکھے گا۔ اس کا بھارت کے جمہوری نظام پر اعتماد اور پختہ ضرور ہوگا۔ دیہی آنچل سے ایک غریب خاندان اور دلت طبقے کا شخص دیش کے اعلی ترین عہدے پر فائض ہوجائے یہ بھارت جیسی مضبوط جمہوریت میں ہی ممکن ہے۔ امید کی جانی چاہئے شری رامناتھ کووند اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی عہدے کے وقار اور آئینی تقاضوں کے مطابق کریں گے۔ ہم شری کووند کو بھارت کے 14 ویں صدر چنے جانے پر مبارکباد دیتے ہیں۔
سب سے اہم اشو جو مستقبل قریب میں سامنے آئے گا وہ ہے ایودھیا میں رام مندر کا اشو۔معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں ہے۔ عدالت کہہ چکی ہے کہ دونوں فریق کو عدالت کے باہر سمجھوتہ کرلینا چاہئے حالانکہ فی الحال تو اس کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔ ایودھیا تنازعہ میں سپریم کورٹ نے اگر بھاجپا کی امیدوں کے الٹ کوئی فیصلہ دیا تو سرکار اس کے مطابق کوئی آئینی قدم اٹھا سکتی ہے۔ ایسے میں راشٹرپتی بھون بڑا سہارا رہے گا۔ بھاجپا مذہب کی بنیاد پر سول کورٹ کی شروع سے ہی مخالفت کرتی رہی ہے۔ اترپردیش اسمبلی چناؤ کے دوران تین طلاق بڑا اشو بنایا تھا۔ اس معاملہ میں 2019 کے چناؤ سے پہلے کوئی بل لایا جاسکتا ہے اور لوک سبھا میں بھاجپا کی اکثریت ہے لیکن راجیہ سبھا میں 49 ووٹ کم پڑیں گے۔ اگر راجیہ سبھا میں وینکیا اتحادی پارٹیوں کی حمایت سے بل پاس کروانے میں اہل ہوئے تو صدر بھی کوئی اڑچن نہیں پیدا کریں گے۔ حالانکہ راشٹرپتی چناؤ کے معاملے میں کوئی اشو نہیں ہوتا لیکن اس عہدے کے لئے دونوں امیدوار کا دلت طبقہ سے ہونے سے دلتوں کی امیدیں بڑھ گئی ہیں۔ نامزد صدر کووند پورے دیش کے مکھیا ہیں کسی طبقہ خاص کے نہیں اس لئے انہیں صرف دلت طبقہ کے نیتا کی شکل میں اب نہیں دیکھا جاسکتا۔ لیکن پھر بھی ان کے صدر بننے سے ایک فرق تو پڑے گا کے دیش کا دلت طبقہ اس میں اپنی طاقت کی جھلک دیکھے گا۔ اس کا بھارت کے جمہوری نظام پر اعتماد اور پختہ ضرور ہوگا۔ دیہی آنچل سے ایک غریب خاندان اور دلت طبقے کا شخص دیش کے اعلی ترین عہدے پر فائض ہوجائے یہ بھارت جیسی مضبوط جمہوریت میں ہی ممکن ہے۔ امید کی جانی چاہئے شری رامناتھ کووند اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی عہدے کے وقار اور آئینی تقاضوں کے مطابق کریں گے۔ ہم شری کووند کو بھارت کے 14 ویں صدر چنے جانے پر مبارکباد دیتے ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں