رائٹ ٹو پرائیویسی آئین کے تحت بنیادی حق ہے

پرائیویسی بنیادی حق ہے یا نہیں اس اہم ترین سوال کا جواب ہمیں جلدمل جائے گا۔دیش کی سپریم کورٹ کی توجہ اس طرف گئی ہے جب چیف جسٹس جگدیش سنگھ کھیر کی سربراہی والی ڈویژن بنچ اس اشو پر سماعت کررہی تھی۔ اب عدالت کی 9 ججوں کی آئینی بنچ طے کرے گی کہ رائٹ ٹو پرائیویسی آئین کے تحت بنیادی حق ہے یا نہیں؟ سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی بنچ نے معاملہ کو 9 ججوں کی بنچ کے حوالہ کردیا ہے۔ اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے کہا کھڑک سنگھ اور ایم پی شرما سے متعلق معاملہ میں سپریم کورٹ کی دو نفری بنچ نے کہا ہوا ہے کہ رائٹ ٹو پرائیویسی بنیادی حق نہیں ہے۔ 1950 میں 8 ججوں کی آئینی بنچ نے ایم پی شرما سے متعلق کیس میں کہا تھا کہ رائٹ ٹو پرائیویسی بنیادی حق نہیں ہے وہیں 1961 میں کھڑک سنگھ سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کی 6 ججوں کی بنچ نے بھی رائٹ ٹو پرائیویسی کو بنیادی حق کے دائرے میں نہیں مانا۔ سارا معاملہ آدھار کارڈ کو لیکر شروع ہوا۔ آدھار کے لئے جانے والا ڈیٹا رائٹ ٹو پرائیویسی کی خلاف ورزی کرتا ہے یا نہیں اس مسئلہ پر سپریم کورٹ کی 5 ججوں کی آئینی بنچ کے سامنے یہ سوال آیا کہ کیا رائٹ ٹو پرائیویسی بنیادی حق ہے یا نہیں؟ غور طلب ہے کہ 23 جولائی 2015 کو مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ رائٹ ٹو پرائیویسی آئین کے تحت بنیادی حق نہیں ہے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے اس وقت کے اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے دلیل دی تھی کہ آئین میں پبلک کے لئے رائٹ ٹو پرائیویسی کی کوئی سہولت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا رائٹ ٹو پرائیویسی سے متعلق قانون غیر واضح ہے۔ سپریم کورٹ میں اس مسئلہ پر سماعت کے دوران عرضیوں کی وکیلوں نے دوسری زوردار دلیلیں پیش کیں۔ عرضی گزاروں کی طرف سے پیش چاروں وکیلوں کا کہنا تھا کہ آئین میں دئے گئے بنیادی حقوق میں ہی پرائیویسی کا حق شامل ہے۔ اگر پرائیویسی کو بنیادی حق قرار نہیں دیا گیا تو باقی بنیادی حق بے مطلب ہوجائیں گے۔ جینے اور آزادی کے حق اور قدرتی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں اور کسی آئینی سسٹم کے قائم ہونے سے پہلے وجود میں ہیں۔ آئینی روایت سبھی بنیادی حقوق کے سلسلہ میں پرائیویسی حق کے بنا جینے کا حق محسوس نہیں کیا جاسکتا۔ عرض گزاروں کی طرف سے پیش وکیل گوپال سبرامنیم نے کہا کہ پرائیویسی صرف بیڈروم تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ شخصی آزادی کے حق میں بھی شامل ہے۔ آزادی کے حق کا مطلب ذاتی پسند ہے اور اس کے لئے پرائیویسی کا حق ضروری ہے۔ سولی سوراب جی کے مطابق آئین میں پریس کی آزادی کا بھی ذکر نہیں ہے یہ تبھی آئین سے نکال دیا گیا ۔ پرائیویسی کے حق کی بھی بڑی پوزیشن ہے اور اس کی تشریح ہے شیام دیوان کی دلیل تھی کہ پرائیویسی میں جسمانی یکجہتی بھی شامل ہے۔ صرف ناکارہ انتظامیہ میں ہی شہری کا جسم اس کا اپنا نہیں رہتا ہے۔بھارت سرکار کی طرف سے آدھارکارڈ کو ضروری کئے جانے کے بعد تمام لوگوں نے بڑی عدالت میں عرضیاں داخل کی تھیں۔ عرضیوں میں کہا گیا ہے کہ آدھار کیلئے بایومیٹرک پہچان اکٹھا کیا جانا اور سبھی چیزوں کو آدھار سے جوڑنا شہری کی پرائیویسی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔ سماعت کے دوران عدالت نے بھی مانا کہ اس معاملہ میں سب سے پہلے یہ طے ہونا چاہئے کہ آئین میں پرائیویسی کو بنیادی حق مانا گیا ہے یا نہیں؟ چیف جسٹس کا تبصرہ تھا پہلے اسے طے کرنے کی ضرورت ہے۔ نہیں تو ہم آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ آئین بننے کے وقت سرکار کا ادارہ اتنا طاقتور نہیں تھا جتنا آج ہوگیا ہے بلکہ آج راجیہ سے بھی آگے بڑھ کر بازار تھا آج کے دور میں ادارے بھی بہت طاقتور ہوگئے ہیں راجیہ اور بازار سے تمام ایسے ادارہ ہیں جو ان دنوں اشاروں پر کام کرتے ہیں اور وہ شخصیت کی نجی زندگی میں جھانکنے اور مداخلت کرنے کی بھرپور طاقت رکھتے ہیں۔ اس لئے پرائیویسی کا تحفظ صرف آدھار پر نہیں ہوسکتا۔ آئی پی سی کی دفعہ اور آئین میں تمام اختیار دئے گئے ہیں۔ حالانکہ آئین سازوں نے پرائیویسی کو بنیادی حق نہیں مانا تھا تب شاید انہیں اس کا احساس نہیں تھا کہ ایک دن ملک اتنا طاقتور ہوجائے گا اور شخص اتنا کمزور۔ حالانکہ مہاتما گاندھی ملک کو کمزور کرنے اور شہری کو طاقتور بنانے کے حق میں تھے۔ مہاتما گاندھی سمجھتے تھے کہ راجیہ ڈیولپ ہوں گے تو تشدد بہت کم ہوگا لیکن آج تشدد سے نہ صرف راجیہ کے ادارے ہی غیر محفوظ ہیں بلکہ عام شہری بھی ہیں۔ راجیہ نے اسی عدم تحفظ کو دور کرنے اور سماجی انصاف فراہم کرنے کیلئے اپنے پاس لا محدود اختیار لے رکھے ہیں۔ یہ بحث چلنی چاہئے کہ سماجی سرکشا، سماجی انصاف دینے سے بڑھے گی یا سخت قانون بننے سے۔ چیف جسٹس جے ایس کھیر کی سربراہی والی 9 ججوں کی آئینی بنچ نے کہا کہ پرائیویسی کا حق غیر واضح طور پر تشریح شدہ اختیار ہے اور یہ پوری طرح نہیں مل سکتا۔ یہ آزادی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ بنچ نے مثال دے کر سمجھایا کہ بچے کو جنم دینا پرائیویسی کے حق کے دائرے میں آسکتا ہے اور ماتا پتا یہ نہیں کہہ سکتے کہ سرکار کے پاس یہ حق نہیں ہے کہ وہ ہر بچے کو اسکول بھیجنے کی ہدایت دے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟