آر ٹی آئی سی خلاصہ :ای وی ایم گڑبڑی ہوئی
پانچ ریاستوں میں ہوئے چناؤ نتائج سامنے آتے ہیں مختلف سیاسی پارٹیوں کی طرف سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم ) میں گڑبڑی کے الزام لگنے شروع ہوئے اب ای وی ایم میں گڑبڑی ایک بڑا اشو بنتا جارہا ہے۔ عام آدمی پارٹی نے ای وی ایم کو لیکر ایک بار پھر سوال اٹھائے ہیں۔ عوام آدمی پارٹی نے ایتوار کو کہا کہ اسے تو چناؤ افسر نے اطلاع کے حق کے تحت مان لیا ہے کہ چناؤ میں گڑبڑی ہوئی تھی۔ آزاد امیدوار کا ووٹ بھاجپا کو گیا۔ عاپ نے کہا بھاجپا کو اب یہ مان لینا چاہئے کہ مودی لہر نہیں ، بے ایمانی کی لہر تھی۔ بھاجپا ای وی ایم میں گڑبڑی سطح پر پہلے سے طے سیٹنگ کر سبھی چناؤ کو بے ایمانی سے جیتتی آئی ہے اور اب چناؤ کمیشن کو سبھی دلیلیں کنارے کر اعلی سطحی جانچ کرنی چاہئے۔ عاپ کے چیف ترجمان سورو بھاردواج نے مہاراشٹر میں ہوئے ضمنی چناؤ کو لیکر ٹوئٹ کرکے کہا کہ آر ٹی آئی کے جواب میں کہا گیا ہے کہ آزاد امیدوار کو ملے ووٹ بھاجپا کو چلے گئے۔ یہ معاملہ بلڈھانہ ضلع چناؤ پریشد کا ہے۔ ریٹرننگ افسر نے اس معاملہ کی تصدیق کی ہے کہ چناؤ کمیشن کے دعوؤں کے برعکس مہاراشٹر میں ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ کی بات ثابت ہوئی ہے۔ اب اطلاع کے حق کے تحت ملی جانکاری سے خلاصہ ہوا ہے۔ آر ٹی آئی رضاکار انل گلگلی نے بتایا کہ مہاراشٹر کے بلڈھانہ ضلع میں حال ہی میں ہوئے پریشد چناؤ کے دوسران لونہار کے سلطان پور گاؤں میں پولنگ کے دوران ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ کی بات سامنے آئی ہے۔ گلگلی نے کہا کہ ووٹر جب بھی ایک امیدوار کو الاٹ چناؤ نشان ناریل کا بٹن دباتے ہیں تو بی جے پی کے چناؤ نشان کمل کے سامنے والا ایل ای ڈی جل اٹھتا ہے۔ چناؤ افسر نے اس کی جانکاری ضلع افسر کو دی جس کا خلاصہ آرٹی آئی سے ملی جانکاری سے ہوا ہے۔ چناؤ حلقہ سے کئی چناؤ افسران کے ذریعے ضلع ادھیکاری کے پاس شکایت کرنے کے بعد اس پولنگ مرکز پر پولنگ منسوخ کردی گئی۔ پولنگ مرکز کوبند کردیا گیا۔ گڑبڑ ای وی ایم مشین کو سیل کردیا گیا۔ بعد میں پولنگ پوری طرح سے منسوخ کر پانچ دن بعد 21 فروری کو دوبارہ کرائی گئی۔ کیا واقعی ای وی ایم مشین میں گڑبڑی ممکن ہے؟ کیوں دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں اس تکنیک کو نہیں اپنایا ہے؟ بین الاقوامی سطح پر خیال ہے کہ ای وی ایم گڑبڑیوں سے آراستہ ہے اور اس کے ساتھ آسانی سے چھیڑ چھاڑ کی جاسکتی ہے اور اس کے لئے راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ اس تکنالوجی کے دور میں تو یہ اور بھی زیادہ حساس ترین اشو بن گیا ہے۔ یوروپ اور نارتھ امریکہ اس سے پہلے ہی توبہ کرچکے ہیں۔ نیدر لینڈ نے ای وی ایم مشین سے شفافیت کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے پابندی لگادی تھی۔ آئرلینڈ نے 51 ملین اس کی ریسرچ پر خرچ کرنے کے بعد شفافیت کا حوالہ دیتے ہوئے پابندی لگادی۔ جرمنی نے بھی اس میں شفافیت نہ ہونے کا حوالہ دے کر غیر آئینی قراردیا اور پابندی کے ساتھ یہ بھی کہا کہ اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا آسان ہے۔ امریکہ کے کیلیفورنیا نے اس میں پیپر ٹریل نہ ہونے کی وجہ سے پابندی لگادی تھی۔ فرانس و انگلینڈ میں بھی اس کا استعمال نہیں کیا جاتا وہیں یہ بھی سچ ہے کہ آج تک بھارت میں کوئی بھی سیاسی پارٹی ای وی ایم کی ہیکنگ کا پختہ ثبوت نہیں دے پائی ہے۔ چناؤ کمیشن کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ مشین کو دو بار چیک کیا جاتا ہے۔ اسے امیدوار کے سامنے جانچ کرکے سیل کیا جاتا ہے۔ کاؤنٹنگ سے پہلے بھی ای وی ایم کو امیدوار کے سامنے کھولا جاتا ہے۔ بتادیں کہ اس سے پہلے بھی چھیڑ چھاڑ کی شکایتوں پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ معاملہ کو خارج کر چکی ہے۔ چناؤ کمیشن نے دعوی کیا تھا کہ یہ مشینیں پوری طرح سے محفوظ ہیں اور ان میں کسی طرح کی گڑبڑی کئے جانے کی گنجائش نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں سی بی آئی جانچ کی مانگ کو لیکر فی الحال کوئی حکم دینے سے انکار کردیا ہے کیونکہ اب آر ٹی آئی نے نیا خلاصہ کیا ہے اس لئے ای وی ایم پر نئی بحث شروع ہوگئی ہے۔ سب سے بہتر متبادل یہ ہے کہ ای وی ایم میں پیپر ٹریل لگادیا جائے۔ چناؤ کمیشن کو اپنی ضد چھوڑنی چاہئے اور شفافیت لانے کیلئے وی وی پیڈ کے ساتھ مستقبل میں سبھی چناؤ کرانے چاہئیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں