پہلی بار سٹنگ ہائی کورٹ جج سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے

دیش میں پہلی بار سپریم کورٹ نے کسی ہائی کورٹ کے موجودہ جج کو نوٹس جاری کر عدالت میں پیش ہونے کو کہا ہے۔ وزیر اعظم کو خط لکھ کر سپریم کورٹ نے کئی سابق و کام کررہے ججوں کے خلاف کرپشن کا الزام لگانے والے کولکتہ ہائی کورٹ کے موجودہ جج سی ایم کرنن کے خلاف سپریم کورٹ نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کو سبھی جوڈیشیری یا انتظامی کام سے دور رہنے کو کہا ہے۔ حکم قلمبند کرتے وقت چیف جسٹس جے ایس کھیر نے جسٹس کرنن کے نام کے آگے لگا ’بصد احترام‘ لفظ بھی ہٹا دیا۔حکم میں آخر میں لکھا ہے کہ اس معاملے میں ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ اگر جسٹس کرنن قصوروار پائے جاتے ہیں تو کیا کیا جاسکتا ہے اور ان کی سزا کیا ہوگی؟ 7 ججوں کی آئینی بنچ نے جسٹس کرنن کو 13 فروری کو ذاتی طور پر پیش ہوکر بتانے کو کہا ہے کہ کیوں نہ ان پر کارروائی کی جائے؟ بنچ نے کہا کہ کیونکہ معاملہ پہلی بار آیا ہے لہٰذا اس میں ’’بار‘‘ کے تعاون کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ اس معاملے میں ہم کیا کرسکتے ہیں اور کیا نہیں کرسکتے؟ یہ جاننا بیحد ضروری ہے۔ بتادیں جسٹس کرنن نے 20 ججوں پر کرپشن کے الزامات لگائے ہیں۔ 23 جنوری کو وزیر اعظم کے دفتر کو خط بھیج کر سبھی کے خلاف جانچ کرانے کی مانگ کی ہے۔ اسی بات پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا ہے۔ سماعت کے لئے چیف جسٹس جے ایس کھیر کی رہنمائی میں 7 ججو ں کی آئینی بنچ بنائی گئی ہے۔ کولکتہ ہائی کورٹ کے جج کرنن کو سپریم کورٹ کی 7 نفری بنچ نے توہین عدالت کا نوٹس دے کر جمہوریت کے ایک انتہائی اہم ترین ادارے میں ڈسپلن قائم کرنے کی سمت میں بڑا قدم اٹھایا ہے لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس قدم سے ذات پات کا تنازعہ اٹھنے کا بھی خطرہ کھڑا ہوسکتا ہے۔ جسٹس کرنن جب مدراس ہائی کورٹ میں تھے تو ان کی اپنے چیف جسٹس جسٹس سنجے کال سے ٹھنی رہتی تھی۔ہماری بڑی عدلیہ میں کرپشن اور ذات پات گروپ بندی کے الزامات نئے نہیں ہیں انہیں یا تو دبا دیا جاتا رہا ہے یا پھر کسی طرح سے کنارے کرکے نپادیا جاتا رہا ہے۔ جوڈیشیری اگر خود کو ڈسپلن میں نہیں رکھتی تو وہ اپنی ساکھ کھوتی ہے اور اگر وہ کارروائی کرتی ہے تو ایک ذات پات کے الزامات جھیلے بنا نہیں رہ سکتی۔ یہ الزام ایک حد تک جوڈیشیری کے کرپشن اور طریقہ کار پر بھی سوال اٹھا رہی عدلیہ کو نا مناسب بھی لگے گا۔ اس سے بڑی عدلیہ میں ذات اور جنس کی بنیاد پر نمائندگی کا سوال اٹھے گا ساتھ ہی وہ آئینی خود مختاری اپنی جگہ ہے کی اگر جج کرنن توہین عدالت کے قصوروار پائے گئے تو ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے گا؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!