دوسرے مرحلہ میں بمپر ووٹنگ سے چونکانے والے نتیجے آسکتے ہیں
اترپردیش اسمبلی چناؤ کے تیسرے مرحلہ میں 12 اضلاع میں 69 سیٹوں پر 19 فروری کو ووٹ پڑیں گے۔اس مرحلہ میں کئی انتہائی اہمیت کے حامل شہر شامل ہیں جیسے فروخ آباد، ہردوئی، قنوج، مین پوری، اٹاوہ، اوریہ، کانپوردیہات، کانپورشہر، اناؤ، لکھنؤ، بارہ بنکی اور سیتا پور ہیں۔ یہاں سنیچر کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ کل 826 امیدوار میدان میں ہیں۔ سپا ۔بسپا کا گڑھ مانے جانے والے علاقہ ہیں یہاں سال 2012ء میں سپا کو 69 میں سے 55 سیٹیں ملی تھیں۔ لہٰذا اس مرحلہ میں ترکش کے ہرتیر آزمائے جارہے ہیں، ایڑھی چوٹی کا زور لگادیا گیا ہے۔ دوسرے مرحلہ میں بھاری پولنگ سے سبھی متعلقہ پارٹیاں تھوڑا فکر مند ضرور ہیں۔یوپی اسمبلی چناؤ کے دوسرے مرحلہ میں بدھوار کے روز 65.16 فیصدی ووٹنگ ہوئی تھی۔ یہاں 11 اضلاع کی 67 سیٹوں کے لئے ووٹ ڈالے گئے تھے ۔ وہیں اتراکھنڈ میں 69 سیٹوں کے لئے تقریباً 70 فیصدی لوگوں نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ پچھلی بار سے 19فیصد ووٹ بڑھے تو سپا کی سیٹیں 17 سے بڑھ کر 34 ہوگئی تھیں ۔ اس مرتبہ صرف 0.28 فیصد ووٹ بڑھا ہے۔
مغربی یوپی و روہیل کھنڈ کی زیادہ سیٹوں پر بدھوار کو عام طور پر سہ رخی مقابلہ نظر آیا۔ سپا۔ بھاجپا اور بسپا کی نظریں بڑھی پولنگ اور مسلمانوں کی ووٹنگ کے ٹرینڈ اور پیٹنٹ پرلگی رہیں۔ بدھوار کو جہاں پولنگ ہوئی ہے ان میں 47 مسلم اکثریتی سیٹیں ہیں ان میں سہارنپور، بجنور، مراد آباد، امروہہ، سنبھل، رام پور اور بریلی پرمشتمل 37 سیٹوں پر 30 فیصد سے زیادہ مسلم ووٹر ہیں۔ وہیں 17 سیٹوں پر 20 سے 29 فیصدی کے درمیان مسلم ووٹ ہیں۔ سپانیتاؤں کا کہنا ہے کہ مسلمان ہی نہیں سبھی طبقات کے ووٹروں کو راہل۔ اکھلیش کا ساتھ پسند آیا ہے۔ حالانکہ کہیں سائیکل کی رفتار تیز رہی تو کہیں کمل کھلا۔ کئی جگہ ہاتھی مست چال سے بڑھتا دکھائی دیا۔ سپا ۔ کانگریس خیمہ پولنگ کے رجحان سے خوش ہے۔ اس کا دعوی ہے کہ مسلمانوں نے فرقہ وارانہ طاقتوں کو ہرانے کے لئے اکھلیش۔ راہل کی جوڑی کو پسند کیا ہے۔ اس سے سہارنپور سمیت کئی اضلاع میں سیاسی تجزیئے بدلیں گے۔ سہارنپور ایک واحد ضلع ہے جہاں 2012ء میں سپا کا کھاتہ نہیں کھلاتھا۔ اس مرتبہ یہاں زیادہ تر سیٹوں پر اہم مقابلہ سپا ۔ کانگریس اتحاد ، بھاجپا اور بسپا کے درمیان مانا جارہا ہے۔ سہارنپور ،بجنور، امروہہ، مراد آباد، سنبھل، رام پور ،بدایوں، بریلی، شاہجہانپور، پیلی بھیت، لکھیم پور کھیری وغیرہ میں پولنگ کا رجحان تقریباً ایک جیسا ہی رہا۔ اس کا بڑا حصہ ہاتھی پر سوار نظر آیا۔ بسپا نے دلت ۔مسلم تجزیئے کو مرکز میں رکھ کر حکمت عملی بنائی ہے۔ نتیجے بتائیں گے کہ یہ تجزیئے کتنے ہٹ ہوتے ہیں؟ بسپا دوسرے مرحلہ میں بھی آگے رہنے کا دعوی کررہی ہے۔ بھاجپا کو پولارائزیشن سے کامیابی ملنے کی امیدہے۔ سہارنپور سے لیکر پیلی بھیت تک کئی سیٹوں پر ووٹوں کا پولارائزیشن ہوتا دکھائی دیا۔ اسی لائن پر چل کر بھاجپا نے لوک سبھا چناؤ میں بڑی کامیابی حاصل کی ۔ حالانکہ اب 2014ء جیسی لہر نہیں ہے پھر بھی ووٹوں کے پولارائزیشن سے بھاجپا خیمے میں راحت محسوس کی جارہی ہے۔ اس کا امید ہے کہ اسے دوسرے مرحلہ میں اچھی کامیابی ملے گی۔ کئی سیاسی تجزیہ نگاروں کا اندازہ تھا کہ مسلمان حکمت عملی پولنگ (ٹیکٹیکل ووٹنگ) کریں گے لیکن عام طور پر ایسا شاید نہیں ہوا۔
جن ووٹوں کا بٹوارہ سپا۔ بسپا میں ہوا ۔بسپا کے پاس ووٹ ہونے کی وجہ سے کئی سیٹوں پر مسلمان اس کے ساتھ گئے لیکن کئی جگہ نہ جانے کی بھی قیاس آرائیاں لگ رہی ہیں۔ وہیں اتراکھنڈ میں 68 فیصدی پولنگ ہوئی جو اب تک کی سب سے زیادہ مانی جارہی ہے۔ 2012ء میں 66.17 پولنگ ہوئی تھی ۔ پچھلی مرتبہ صرف2.45 فیصد ووٹ بڑھنے سے سرکار بدل گئی تھی۔ کانگریس کو32 اور بھاجپا کو 31 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔ سرکار کانگریس کی ہے اور مقابلہ بھاجپا سے۔ دوسرے مرحلہ کی کئی سیٹوں پر کانگریس اور بھاجپا کے کئی باغی بھی میدان میں ہیں۔ رجحان کے مطابق کئی سیٹوں پر یہ بھاجپا اور کانگریس کے اندازوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔ پولنگ پیٹرن کو دیکھ کر اتراکھنڈ میں لگ رہا ہے کچھ بڑے نیتاؤں کا کھیل بھی بگڑ سکتا ہے اور چناؤ میں غیر متوقعہ نتیجے آسکتے ہیں۔ کچھ نیتاؤں کا خیال ہے کانگریس ۔بھاجپا کی سیٹوں میں زیادہ فرق ہونے کا چانس کم نظر آرہا ہے اور اگر ایسا ہوا تو دوسرے امیدواروں کے پاس اقتدار کی چابی آسکتی ہے۔
کانگریس ممبر اسمبلی رہے و نیتا بی جے پی کے ٹکٹ پر چناؤ لڑ رہے ہیں۔ ان سیٹوں پر سب کی نظریں ہیں۔ آخر میں یوگ بابا رام دیو کے بیان کے بعد سیاسی زلزلہ آگیا ہے۔ بابا رام دیو نے کہا چناؤ نتیجے سے بھونچال آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ اچھے اچھے لوگ اس چناؤ میں نمٹ جائیں گے۔ اقتدار کے گلیاروں میں اور اپوزیشن خیمے میں ان کے بیان کو بھاجپا سے بے رخی کی شکل میں دیکھا جارہا ہے۔ انہوں نے یہ بیان ایسے موقعہ پر کیوں دیا، اسے لیکر قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ یوپی کے دوسرے مرحلہ میں 69 سیٹوں پر ہوئی ووٹنگ میں کانٹے کی ٹکر دکھائی دے رہی ہے۔ پچھلے اسمبلی چناؤ میں کانگریس نے 70 میں سے32 سیٹیں اور بھاجپا نے 31 سیٹیں جیتی تھیں۔ بی ایس پی کے کھاتہ میں 3 ، یو کے ڈی کے کھاتہ میں 1 اور دیگر کے کھاتے میں 3 سیٹیں گئیں تھیں۔
مغربی یوپی و روہیل کھنڈ کی زیادہ سیٹوں پر بدھوار کو عام طور پر سہ رخی مقابلہ نظر آیا۔ سپا۔ بھاجپا اور بسپا کی نظریں بڑھی پولنگ اور مسلمانوں کی ووٹنگ کے ٹرینڈ اور پیٹنٹ پرلگی رہیں۔ بدھوار کو جہاں پولنگ ہوئی ہے ان میں 47 مسلم اکثریتی سیٹیں ہیں ان میں سہارنپور، بجنور، مراد آباد، امروہہ، سنبھل، رام پور اور بریلی پرمشتمل 37 سیٹوں پر 30 فیصد سے زیادہ مسلم ووٹر ہیں۔ وہیں 17 سیٹوں پر 20 سے 29 فیصدی کے درمیان مسلم ووٹ ہیں۔ سپانیتاؤں کا کہنا ہے کہ مسلمان ہی نہیں سبھی طبقات کے ووٹروں کو راہل۔ اکھلیش کا ساتھ پسند آیا ہے۔ حالانکہ کہیں سائیکل کی رفتار تیز رہی تو کہیں کمل کھلا۔ کئی جگہ ہاتھی مست چال سے بڑھتا دکھائی دیا۔ سپا ۔ کانگریس خیمہ پولنگ کے رجحان سے خوش ہے۔ اس کا دعوی ہے کہ مسلمانوں نے فرقہ وارانہ طاقتوں کو ہرانے کے لئے اکھلیش۔ راہل کی جوڑی کو پسند کیا ہے۔ اس سے سہارنپور سمیت کئی اضلاع میں سیاسی تجزیئے بدلیں گے۔ سہارنپور ایک واحد ضلع ہے جہاں 2012ء میں سپا کا کھاتہ نہیں کھلاتھا۔ اس مرتبہ یہاں زیادہ تر سیٹوں پر اہم مقابلہ سپا ۔ کانگریس اتحاد ، بھاجپا اور بسپا کے درمیان مانا جارہا ہے۔ سہارنپور ،بجنور، امروہہ، مراد آباد، سنبھل، رام پور ،بدایوں، بریلی، شاہجہانپور، پیلی بھیت، لکھیم پور کھیری وغیرہ میں پولنگ کا رجحان تقریباً ایک جیسا ہی رہا۔ اس کا بڑا حصہ ہاتھی پر سوار نظر آیا۔ بسپا نے دلت ۔مسلم تجزیئے کو مرکز میں رکھ کر حکمت عملی بنائی ہے۔ نتیجے بتائیں گے کہ یہ تجزیئے کتنے ہٹ ہوتے ہیں؟ بسپا دوسرے مرحلہ میں بھی آگے رہنے کا دعوی کررہی ہے۔ بھاجپا کو پولارائزیشن سے کامیابی ملنے کی امیدہے۔ سہارنپور سے لیکر پیلی بھیت تک کئی سیٹوں پر ووٹوں کا پولارائزیشن ہوتا دکھائی دیا۔ اسی لائن پر چل کر بھاجپا نے لوک سبھا چناؤ میں بڑی کامیابی حاصل کی ۔ حالانکہ اب 2014ء جیسی لہر نہیں ہے پھر بھی ووٹوں کے پولارائزیشن سے بھاجپا خیمے میں راحت محسوس کی جارہی ہے۔ اس کا امید ہے کہ اسے دوسرے مرحلہ میں اچھی کامیابی ملے گی۔ کئی سیاسی تجزیہ نگاروں کا اندازہ تھا کہ مسلمان حکمت عملی پولنگ (ٹیکٹیکل ووٹنگ) کریں گے لیکن عام طور پر ایسا شاید نہیں ہوا۔
جن ووٹوں کا بٹوارہ سپا۔ بسپا میں ہوا ۔بسپا کے پاس ووٹ ہونے کی وجہ سے کئی سیٹوں پر مسلمان اس کے ساتھ گئے لیکن کئی جگہ نہ جانے کی بھی قیاس آرائیاں لگ رہی ہیں۔ وہیں اتراکھنڈ میں 68 فیصدی پولنگ ہوئی جو اب تک کی سب سے زیادہ مانی جارہی ہے۔ 2012ء میں 66.17 پولنگ ہوئی تھی ۔ پچھلی مرتبہ صرف2.45 فیصد ووٹ بڑھنے سے سرکار بدل گئی تھی۔ کانگریس کو32 اور بھاجپا کو 31 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔ سرکار کانگریس کی ہے اور مقابلہ بھاجپا سے۔ دوسرے مرحلہ کی کئی سیٹوں پر کانگریس اور بھاجپا کے کئی باغی بھی میدان میں ہیں۔ رجحان کے مطابق کئی سیٹوں پر یہ بھاجپا اور کانگریس کے اندازوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔ پولنگ پیٹرن کو دیکھ کر اتراکھنڈ میں لگ رہا ہے کچھ بڑے نیتاؤں کا کھیل بھی بگڑ سکتا ہے اور چناؤ میں غیر متوقعہ نتیجے آسکتے ہیں۔ کچھ نیتاؤں کا خیال ہے کانگریس ۔بھاجپا کی سیٹوں میں زیادہ فرق ہونے کا چانس کم نظر آرہا ہے اور اگر ایسا ہوا تو دوسرے امیدواروں کے پاس اقتدار کی چابی آسکتی ہے۔
کانگریس ممبر اسمبلی رہے و نیتا بی جے پی کے ٹکٹ پر چناؤ لڑ رہے ہیں۔ ان سیٹوں پر سب کی نظریں ہیں۔ آخر میں یوگ بابا رام دیو کے بیان کے بعد سیاسی زلزلہ آگیا ہے۔ بابا رام دیو نے کہا چناؤ نتیجے سے بھونچال آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ اچھے اچھے لوگ اس چناؤ میں نمٹ جائیں گے۔ اقتدار کے گلیاروں میں اور اپوزیشن خیمے میں ان کے بیان کو بھاجپا سے بے رخی کی شکل میں دیکھا جارہا ہے۔ انہوں نے یہ بیان ایسے موقعہ پر کیوں دیا، اسے لیکر قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ یوپی کے دوسرے مرحلہ میں 69 سیٹوں پر ہوئی ووٹنگ میں کانٹے کی ٹکر دکھائی دے رہی ہے۔ پچھلے اسمبلی چناؤ میں کانگریس نے 70 میں سے32 سیٹیں اور بھاجپا نے 31 سیٹیں جیتی تھیں۔ بی ایس پی کے کھاتہ میں 3 ، یو کے ڈی کے کھاتہ میں 1 اور دیگر کے کھاتے میں 3 سیٹیں گئیں تھیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں