راؤنڈ ون پورا اب نظریں دوسرے راؤنڈ پر

یوپی کے اسمبلی چناؤ کے دوسرے دوسرے میں بدھوار کو 66 اسمبلی کی سیٹوں پر ووٹ پڑیں گے۔ چناؤ پرچار رک چکا ہے۔ اس دور میں سہارنپور، بجنور، مراد آباد، سنبھل، رامپور، بریلی ، امروہہ، پیلی بھیت، شاہجہاں پور اور بدایوں سیٹوں پر ووٹ پڑیں گے۔یہاں مسلم ووٹوں کی خصوصی اہمیت ہے۔ پہلے دور کی ووٹنگ کے بعد اب سبھی پارٹیوں کی نظریں اس دور پر لگ گئی ہیں۔ ویسے تو اس راؤنڈ میں 67 سیٹوں پر چناؤ ہونا تھا لیکن ایک سیٹ پر سپا امیدوار کا انتقال ہونے کی وجہ سے چناؤ ملتوی کردیا گیا ہے۔ پہلے دور میں سبھی علاقوں میں 2012ء کے مقابلے میں زیادہ ووٹنگ ہوئی ہے۔ اس زیادہ ووٹنگ کا اثر کس پر کتنا پڑ سکتا ہے اس کا تجزیہ کیا جارہا ہے۔ جاٹھ طبقہ ، دلت اور مسلم سبھی کی بیلٹ میں 8 سے لیکر14 فیصد زیادہ ووٹنگ کی خبریں ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی ریلیوں میں امڑ رہی بھیڑ اور مودی کے دھنواں دھار بھاشنوں سے اترپردیش و اتراکھنڈ میں بھاجپا کارکن کی ہمت بڑھی ہے یہی وجہ ہے کہ بھاجپا صدرامت شاہ کہہ رہے ہیں کہ یوپی چناؤ کے پہلے دو مرحلوں میں پارٹی 140 سیٹوں میں سے 90 سے زیادہ سیٹ جیت رہی ہے۔ جہاں تک پہلے مرحلہ میں ووٹروں کے رجحان کی بات ہے تو بھاجپا 50 سے زیادہ سیٹیں جیت رہی ہے۔ امت شاہ کے مطابق پہلے دو مرحلوں میں بھاجپا کا مین مقابلہ بہوجن سماج پارٹی سے رہا جبکہ آگے کے مرحلوں میں مقابلہ سپا ۔ کانگریس گٹھ بندھن سے رہے گا۔ وہیں راشٹریہ لوکدل صدر چودھری اجیت سنگھ نے دعوی کیا ہے کہ پہلے دور کی ووٹنگ میں بھاجپا کا سوپڑا صاف ہونے کے ساتھ ہی لوکدل کی لہر نظر آرہی ہے۔ بھاجپا کے نام کی نئی وضاحت کرتے ہوئے اجیت سنگھ نے اس کا نام ’بھارتیہ جملہ پارٹی‘ بتایا۔ وہیں بہوجن سماج پارٹی سپریمو مایاوتی نے میڈیا کی سروے رپورٹوں کو سرے سے خارج کرتے ہوئے کہا کہ آپ ان سب کے جھانسوں میں نہ آئیں۔ یہ ایک منصوبہ بند سازش ہے۔ سوشری مایاوتی نے دعوی کیا کہ آپ لوگ مطمئن رہیں، اسمبلی چناؤ کے بعد پردیش میں بسپا کی ہی سرکار بنے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یادگاریں بنانے کے کام کو بسپا گزشتہ دورِ کار میں بخوبی انجام دے چکی ہے۔ اس بات صرف جنتا کے وکاس سے جڑے کاموں پر ہی دھیان دیا جائے گا۔ مایاوتی نے کہا کہ امت شاہ اصل میں بسپا کو ملنے والی سیٹیں بتا رہے تھے اور ان کے چہرے کی رنگت اڑی ہوئی تھی۔ پہلے دور کی ووٹنگ کی بنیاد پر سپا اور کانگریس کی طرف سے کوئی بیان کھل کر نہیں کررہا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پہلے مرحلہ کی ووٹنگ میں مسلموں کی پہلی پسند سپا۔ کانگریس گٹھ بندھن رہا ہے۔ دوسری پارٹیوں کے مسلم امیدواروں کے ہونے کے باوجود ان کا جھکاؤ سپا یا کانگریس کی طرف رہا۔ سپا کے حق میں مسلموں کے رجحان سے بھاجپا کو ووٹوں کی گول بندی میں آسانی رہی۔ سپا ،بسپا کے بیچ کئی سیٹوں پر مسلمان ووٹوں کا بٹوارہ بھی بھاجپا کیلئے مفید ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاٹوں کی ناراضگی کے باوجود بھاجپا پشچمی اترپردیش کی زیادہ تر سیٹوں پر سیدھے مقابلے میں کھڑی دکھ رہی ہے۔ کہیں سپا تو کہیں بسپا اس کے مقابل ہے۔ پہلے مرحلہ کی ووٹنگ میں اب تک کے سارے ریکارڈ ٹوٹے تو اس کی اہم وجہ نوجوان ووٹروں کا اتساہ مانا جارہا ہے۔ حالانکہ بڑھے ووٹنگ فیصد کو 2014ء کے لوک سبھا چناؤ کی طرح کسی پارٹی کے کلین سوئپ والی صورتحال کا اشارہ نہیں مانا جارہا ہے۔ چناوی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پہلے مرحلہ کی 73 سیٹوں پر تکونے سے لیکر چارکونے مقابلہ ہوئے ہیں۔ پشچمی یوپی کی سیاست پر نظر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ پہلے مرحلہ میں لوک سبھا چناؤ جیسا دھروی کرن نہیں ہوا ہے۔ جن سیٹوں پردھروی کرن ہوا ہے وہ کسی ایک دل نہیں بلکہ بھاجپا کو ہرانے کی صورت میں نظر آنے والے امیدوار کے حق میں ہوا ہے۔ ان میں بسپا کے ساتھ ساتھ سپا ۔ کانگریس گٹھ بندھن بھی پسند بنی ہے۔ کئی سیٹوں پر مسلم ووٹ بٹے بھی ہیں۔ اسی طرح جاٹوں کا ووٹ راشٹریہ لوک دل کو تو گیا ہی ہے بھاجپا و دیگر پارٹیوں کے حق میں بھی گیا ہے۔ بیداری کے چلتے ہی ویسا دھروی کرن نہیں ہوا جیسا لوگ امید کررہے تھے۔ پہلے مرحلہ میں بسپا نے بہتر واپسی کی ہے۔ بھاجپا دوسرے نمبر پر رہی اور سپا۔ کانگریس گٹھ بندھن تیسرے نمبر پر بتائی جارہی ہے۔ بڑھی ووٹنگ کی اہم وجہ نوجوان رہے ۔ نوجوانوں ووٹروں نے پرانے زمانے کی طرح روٹی، کپڑا، مکان تک محدود نہ رہ کر سنہرے مستقبل و نئی دنیا کے سپنے دیکھے ہیں۔ پہلے مرحلہ کی ووٹنگ گول بندی کی جگہ ٹیکٹیکل ووٹنگ کو دکھاتی ہے۔ جاٹ کا خیال نہ رکھ پانا بی جے پی کے لئے بیشک نقصاندہ رہا ہو لیکن نوجوان جاٹ بی جے پی کے حق میں جاتا دکھا۔ شہری سیٹوں پر بھاجپا اور دیہی علاقہ پر سپا۔ کانگریس گٹھ بندھن و بی ایس پی کو فائدہ رہا ہے۔ میرٹھ، سہارنپور، مظفر نگر کے شہری علاقوں میں سمپردائک گول بندی بھی ہوئی ہے۔ اس کا فائدہ بھاجپا کو مل سکتا ہے وہیں سردھنا میں بسپا و گٹھ بندھن کے بیچ ووٹ بٹا لیکن جہاں بسپا کا مسلم امیدوار کمزور تھا گٹھ بندھن کی طرف ووٹ چلا گیا۔ چیف الیکٹورل آفیسر ٹی ۔وینکٹیش کا ماننا ہے کہ چناؤ کمیشن کا مانیٹرنگ سسٹم صاف ستھری ووٹر لسٹیں ،ووٹروں میں بیداری بڑھنے کی وجہ سے ووٹنگ فیصد بڑھا ہے۔ ووٹر سمجھ گئے ہیں کہ ان کا ووٹ کتنا قیمتی ہے۔ اب کمیشن کوشش کرے گا کہ فیصد اور بڑھے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟