سپریم کورٹ کا ویاپم گھوٹالہ پر دور رس فیصلہ
مدھیہ پردیش کے کمرشل ٹیسٹ منڈل (ویاپم) کے ذریعے منعقدہ اینٹرینس ٹیسٹ کے ذریعے میڈیکل کالجوں میں غلط طریقے سے داخلہ پانے والے 634 طلبا کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے سے اتنا تو ثابت ہی ہوجاتا ہے کہ ویاپم کی آڑ میں کس طرح سے رسوخ دار لوگ اپنے مفادات کی تکمیل کرتے رہے ہیں۔ میڈیکل کے 634 طلبہ کو جھٹکا دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے ویاپم ٹیسٹ کے ذریعے ایم بی بی ایس نصاب میں ان کا داخلہ منسوخ کرنے کو صحیح ٹھہرایا ہے۔عدالت نے مناسب وسائل کو اپنائے جانے کی ان کی سرگرمی کو ایک بزدلانہ حرکت قراردیا ہے۔ میڈیکل کالجوں میں داخلہ میں اس پیمانے پر گھوٹالہ کا یہ پہلا معاملہ ہے جس میں طلبا سے لاکھوں روپے لیکر یا تو نقل کروائی گئی تھی یا ان کی او ایم آر شیٹ بدل دی گئی تھی۔ چیف جسٹس جے ۔ ایس ۔ کھیرکی رہنمائی والی تین ججوں کی بنچ نے کہا کہ ہمارے نظریئے سے شخصی اور سماجی فائدے کیلئے قومی کردار کی بلی نہیں دی جاسکتی۔ اگرچہ ہم اخلاقیات اور کردار کی کسوٹی پر ایک قوم کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں اگر ہمارا عزم ایک ایسے دیش کی تعمیر ہے جہاں صرف قانون کا راج ہو تب ہم تجویز کردہ سماجی فائدے کے لئے اپیل کنندگان کے دعوے کو قبول نہیں کرسکتے۔ ہم آئین کی دفعہ 142 کے تحت اسی طرح کا فائدہ عرضی کنندگان کو فراہم کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ موجودہ معاملہ بڑے پیمانے پر دھوکہ دھڑی اجاگر کرتا ہے۔ اگر اپنائی گئی یہ کارروائی منظور کرلی جاتی ہے تو یہ نہ صرف لاپروائی ہوگی بلکہ غیر ذمہ داری بھی ہوگی۔ اس سے دیگر لوگ بھی یہی راستہ اپنانے کے لئے حوصلہ افزا ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے سال2008 ء سے 2012ء کے درمیان میڈیکل کالجوں میں غلط طریقوں سے داخلہ پانے والے طلبا کا داخلہ منسوخ کردیا ہے جس سے اب انہیں ڈگریاں نہیں ملیں گی۔ اس فیصلے کی زد میں آئے ان طلبا کا مایوس ہونا فطری ہے مگر کیا وہ واقعی اتنے مایوس تھے جیسا کہ عدالت کے فیصلے نے تبصرہ کیا ہے۔ انہیں پتہ نہیں تھا کہ نقل کرنے کا انجام کیا ہوسکتا ہے؟ اور پھر ان طلبا نے جن ٹیلنٹ یافتہ طلبا کا حق مارا ہے ان کے ساتھ انصاف کس طرح ہوگا؟ یہ سبھی جانتے ہیں کہ میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں کے اسٹیٹ ٹیسٹ میں کس طرح مقابلہ ہوتا ہے اور اس کے لئے طلبا کو کتنی سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔ جن لوگوں نے یہ اشو اٹھایا تھا ان کا کہنا ہے کہ ویاپم میں گڑبڑیاں 1997ء سے چلی آرہی ہیں لیکن کیونکہ ان برسوں کا ریکارڈ دستیاب نہیں ہے اس لئے 2008 کے بعد سے معاملہ کی جانچ ہوئی ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں