یوپی چناؤ میں کس کس کی ساکھ داؤ پر لگی ہے
اترپردیش میں شروع ہوئے اسمبلی انتخابات یوں تو ہمیشہ سے ہی دلچسپ رہے ہیں لیکن 2017ء کا چناؤ جنتجزیوں اور اتحاد وں کے درمیان ہورہا ہے اس کی بحث سیاست میں دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کی زبان پر ہے۔ وزیر اعلی اکھلیش یادو نے کہا ہے یہ چناؤ دیش کی سیاست میں تبدیلی کا ہے۔ اترپردیش کے چناوی میدان میں دل اور حالات بہاراسمبلی ، اسمبلی چناؤ سے الگ ضرور ہیں لیکن لڑائی میں بہار کا تجربہ صاف دکھائی دے رہا ہے۔ بہار کی ہار سے سبق لے کر بھاجپا نے اگر اپنی سیاست میں تھوڑی تبدیلی کی ہے تو بہار میں مہا گٹھ بندھن کی جیت سے اپنی صلاحیت کو ثابت کر چناوی حکمت عملی ساز پرشانت کشور بھاجپا کوگھیرنے کے لئے بہار کی طرز پر چکرویو رچ رہے ہیں۔ سپا ۔کانگریس کے درمیان اتحاد سے لیکر راہل گاندھی اور اکھلیش یادوکی مشترکہ ریلیاں اور روڈ شو اس حکمت عملی کا ہی حصہ ہیں۔ کچھ تبدیلی بہرحال ضرور ہے جہاں بہار میں اتحاد کے لیڈروں سونیا گاندھی، نتیش کمار و لالو پرساد یادو نے نہ صرف ایک مشترکہ ریلی میں حصہ لیا تھاوہیںیوپی میں راہل۔ اکھلیش مسلسل مشترکہ ریلیاں و روڈ شو کررہے ہیں۔اترپردیش کے پہلے دور کی پولنگ ہوچکی ہے اس میں سبھی اپنی جیت کا دعوی کررہے ہیں کریں بھی کیوں نہ؟ سبھی کی عزت اور ساکھ داؤ پر لگی ہے۔ 2017 ء کے چناؤ میں جیت اکھلیش یادو کو سماجوادی پارٹی کے غیرمتنازعہ لیڈر کے طور پر قائم کردے گی اور قومی سطح پر ان کا قد بھی بڑھ جائے گا۔ اکھلیش نے اس چناؤ میں کوئی خطرہ نہ مول لیتے ہوئے یادو کنبے میں چلی بالادستی کی لڑائی کے چلتے نقصان کی تکمیل کیلئے کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔ یہ چناؤ کانگریس کے لئے بھی ریاست میں اپنا وجود بنائے رکھنے کا سوال ہے۔ چناؤ میں کامیابی ملی تو راہل گاندھی تین بڑی ریاستوں گجرات، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بی جے پی کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔ اگر کانگریس اچھی کارکردگی دکھاتی ہے تو راہل گاندھی کی لیڈرشپ پر منظوری کی مہر لگ جائے گی۔جہاں تک بی جے پی کی بات ہے تو یوپی کے نتیجے کا سیدھا اثر 2019 ء کے لوک سبھا چناؤ پر پڑ سکتا ہے۔ کم فرق سے ملی جیت بھی مودی کی پالیسیوں پر مہر لگانے کا کام کرے گی۔ خاص طور پر نوٹ بندی پر۔ عام طور پر کہا جارہا ہے کہ پارٹی اپنے 2012ء کی کارکردگی کو سدھارنے والی ہے جب اسے محض 47 سیٹیں ملی تھیں۔ اگر پارٹی کواکثریت نہیں ملتی تو اس کا سیدھا اثر پی ایم مودی کی ساکھ پر پڑے گا اور پارٹی میں اندرونی رسہ کشی کو بڑھاوا مل سکتا ہے۔ اس کا سیدھا اثر پارٹی صدر امت شاہ کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ اب بات کرتے ہیں بہن جی کی ۔ 2014ء کے چناؤ سمیت لگاتار دو چناوی ہار کے بعد اگر موجودہ اسمبلی چناؤ میں بھی مایاوتی کی پارٹی بی ایس پی کو ہار کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پارٹی ایک بار پھر سے 1990ء کے اس دور میں پہنچ جائے گی جس میں اسے سرکار بنانے کے لئے دوسری پارٹیوں کا منحصر رہنا پڑتا تھا۔ چناوی ہار سے بی ایس پی کے بانی کانشی رام کے اس بہوجن آندولن کیلئے ایک بڑا جھٹکا ہوگا جس کے تحت انہوں نے دلتوں اور پسماندہ اور مسلمانوں کو ساتھ لینے کی کوشش کی تھی۔ چناؤ میں ہار کے بعد مایاوتی کے لئے اپنے دلت ووٹ بینک پر پکڑ بنائے رکھنا کافی مشکل ہوگا۔ مایاوتی اس بار دلت ۔مسلم ۔ براہمن اتحاد کے سہارے 2007ء کی کارکردگی دوہرانے کی کوشش کررہی ہیں لیکن اس بار وہ مسلمانوں کو اپنی طرف لانے کے لئے کافی جدوجہد میں لگی ہیں جوعام طور پر ملائم کی سماجوادی پارٹی کے ساتھ جاتے ہیں۔ اس بار سپا ۔ کانگریس اتحاد بھی مسلمانوں کے لئے کافی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ پہلے اور دوسرے دور کی پولنگ ہوچکی ہے سبھی پارٹیوں کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں