کیا راہل کی ریلی میں آ رہی بھیڑ ووٹ میں تبدیل ہوگی

براہمن، دلت اور مسلمانوں کے تجزیئے سے لمبے عرصے تک صوبے میں راج کرنے والی کانگریس ایک بار پھر اسی فارمولہ کے بلبوتے پر اترپردیش میں اپنا سیاسی وجود بنائے رکھنے یا یوں کہیں اسے واپس اپنے پالے میں لانے کے لئے دن رات ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی پچھلے کئی دنوں سے کبھی کسان یاترا کررہے ہیں تو کبھی کھاٹ سبھا۔ کسانوں کو پارٹی سے جوڑنے کی مہم اس کوشش کا ایک حصہ ہے۔ کسانوں کے در پر دستک دے کر ان سے سیدھی بات چیت کرکے ان کا ہتیشی ہونے کا پیغام دینے میں راہل لگے ہوئے ہیں۔ کسان یاترا کارسپانس بھی ٹھیک ٹھاک مل رہا ہے۔ ویسے ہمیں اس بار چناوی نظارہ کچھ بدلہ بدلہ سا دکھائی پڑ رہا ہے۔ کانگریس سمیت سبھی بڑی سیاسی پارٹیاں براہمنوں کے سہارے اقتدار حاصل کرنے کی مہم میں لگی ہوئی ہیں۔ قریب 53 فیصدی پسماندہ طبقہ ان میں سے تقریباً 32 فیصد انتہائی پسماندہ طبقہ کی ذاتوں کو اپنے خیمے میں فٹ کرنے کے بعد سبھی پارٹیوں نے اب براہمنوں کوا پنے پالے میں لانے کے لئے پوری طاقت جھونک دی ہے۔ ان میں خود کو براہمنوں کا سب سے بڑا ہتیشی ثابت کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ کانگریس کے پوسٹروں میں پہلی بار راہل گاندھی پنڈت بتائے جارہے ہیں تو اناؤ کے براہمن خاندان سے آئی پنجابی بہو شیلا دیکشت کو پارٹی کا براہمن چہرہ بنا کر بطور وزیر اعلی کی حیثیت سے آگے کیا ہے۔ اس لگن میں تو بھاجپا بھی ہے۔ براہمنوں کی ناراضگی سے بچنے اور ان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے 75 سال کی بندش کے باوجود بھاجپا نے کلراج مشرا کو مرکزی کیبنٹ میں بنائے رکھا ہے تو کافی عرصے سے نظرانداز چل رہے شیو پرتاپ شکلا کو راجیہ سبھا میں لے کر براہمنوں کا خیال رکھنے کا پیغام دینے میں پیچھے نہیں ہے۔ جہاں تک بسپا کا سوال ہے تو وہ اپنے واحد ایک براہمن چہرے ستیش چندر مشرا کے بوتے پر 2007 کے دلت براہمن تجزیئے کے ذریعے کرشمے کو دوہرانے کے چکر میں ہے۔ بات ہم راہل گاندھی اور کانگریس پارٹی کی کررہے تھے صوبے میں جس طرح کے سیاسی اور ذاتی تجزیئے دکھائی دے رہے ہیں اس میں راہل کی ریلیوں میں آنے والی بھیڑ کیا ووٹ میں تبدیل ہوپائے گی ؟ یہ بڑا سوال ہے۔ کسان یاترا میں راہل ۔ اکھلیش سرکار سے زیادہ مودی پر حملہ آور ہیں۔ مودی مخالفت اسمبلی چناؤ میں سیاسی طور پر کانگریس کے لئے بہت زیادہ فائدے مند ہوگی اس پر شبہ ہے۔ 2014ء کے عام چناؤ کے تجربوں کو دیکھتے ہوئے کانگریس کے حکمت عملی ساز بھی بھیڑ کے ووٹ میں بدلنے کو لیکر پوری طرح سے باآور نہیں ہیں، لیکن کسان یاترا کو مل رہی حمایت کو اچھا اشارہ ضرور مانا جارہا ہے۔ راہل گاندھی2004ء سے ہی صوبے میں کانگریس کو کھڑا کرنے کی تمام کوششیں کررہے ہیں ۔فی الحال انہیں زیادہ کامیابی نہیں مل پائی۔ دیکھیں اس بار کیا ہوتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟