ابھی تو یہ شروعات ہے
پاکستان نے اڑی میں ہمارے سوتے ہوئے فوجیوں پر جو آتنک وادی حملہ کروایا تھا بھارت نے اس کا ڈپلومیٹک، اکنومک اور فوجی ایکشن لینے کی ٹھان رکھی تھی۔اسی ڈپلومیٹک حکمت عملی کے تحت بھارت نے پاکستان کو پوری طرح سے الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی اور اس میں کامیابی بھی ملی ہے۔ دہشت گردانہ حملے کو لیکراسے کسی دیش کا ساتھ نہیں ملا اور سارک ممالک کی میزبانی بھی گنوانی پڑ رہی ہے۔ اقتصادی ناکہ بندی میں اسے بھارت سے ملا این ایف این (انتہائی ترجیحاتی درجہ) گنوانا پڑ رہا ہے جبکہ سندھو آبی معاہدے کو لیکر بھارت اسے اب تک ملنے والے پانی کی کٹوتی کرنے پر غور کررہا ہے۔ بتادیں کہ سندھو آبی معاہدے کے بارے میں 1960ء میں پنڈت جواہر لال نہرو نے یہ کہا تھا کہ ہم نے قیمت چکا کر امن قائم کرنے کی کوشش کی اور اس کو منسوخ کئے بغیر ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے حصے کا پورا پانی لینے کا اعلان کرکے پاکستان کے ہوش باختہ کردئے ہیں۔
رہی فوجی کارروائی کی تو آج بھارت نے اپنا بدلہ لے لیا ہے۔ ہندوستانی فوج کی طرف سے فوجی آپریشن کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل رنویر سنگھ اور بھارت سرکار کی طرف سے وزیر اطلاعات و نشریات ونکیانائیڈو ہندوستانی فوج کمانڈوز کے ذریعے کنٹرول لائن کے پیچھے دو کلو میٹر اندر ہیلی کاپٹروں سے 7 آتنکی کیمپوں کو تباہ کردیا ہے ساتھ ہی 38 دہشت گردوں کو بھی مار گرایا اور پاکستانی فوج کے جو جوان دہشت گردوں کی سکیورٹی میں تعینات تھے انہیں بھی مار ڈالا گیا۔ فوجی کمانڈو اپنا نشانہ پورا کرکے بخیریت واپس آگئے اور کسی بھی جوان کو کوئی کھرونچ تک نہیں لگی۔ اری حملے کے بعد بھی کشمیر میں فوج نے دراندازی کی دو بڑی کوششوں کو ناکام بنا دیا اور بانڈی پورہ میں ایک دہشت گرد کو مار گرانا کا دعوی کیا ہے۔ حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کے 8 جولائی کو مارے جانے کے بعد وادی میں جاری تشدد میں اب تک82 لوگ مارے جاچکے ہیں۔ جموں کشمیر میں اڑی فوج کے بیس کیمپ پر ہوا حملہ 26 برسوں کاسب سے بڑا حملہ ہے اس میں18 جوان شہید ہوئے۔ وسطی ایشیا میں دہشت گردی کے واقعات پر نگاہ رکھنے والے ساؤتھ ایشیا ٹیررازم (ایس ٹی اے ٹی پی) کے مطابق 2016ء میں 11 ستمبر تک جموں وکشمیرمیں آتنک وادی حملوں میں 46 جوان شہید ہوئے تھے۔ اگر ایتوار کو اڑی حملے میں ہلاک تعداد کو جوڑلیا جائے تو 18 ستمبر تک شہید ہونے والے جوانوں کی تعداد 63 ہو جاتی ہے۔2010ء میں اس صوبے میں 69 جوان شہید ہوئے تھے۔ یعنی 2010ء کے بعد اس سال سب سے زیادہ جوان شہید ہوئے ہیں۔ وزارت داخلہ کی 2015-16 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں سرحد پار سے دو دہائیوں سے زیادہ وقت میں (1990 سے) جاری دہشت گردی میں 2015ء تک 4961 جوان تیز ہوچکے ہیں۔ اس دوران 13921 شہریوں کی جان گئی۔ حال ہی میں پارلیمنٹ نے مانا تھا کہ اس سال سرحد پار سے دہشت گردوں کی گھس پیٹھ میں اضافہ ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ جموں و کشمیر میں کئی جگہ سکیورٹی فورس پر بڑے حملے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں ایک رپورٹ کے مطابق سرحد پار 200 دہشت گرد دراندازی کی فراق میں ہیں۔ 30جون2016 ء تک کشمیر میں دراندازی کی 90 کوششیں کی گئیں جبکہ30 جون2015 ء تک صرف29 کوششیں ہوئیں تھیں۔ راجیہ سبھا میں حال ہی میں ایک سوال کے جواب میں وزیر ہنسراج اہیر نے بتایا تھا کہ ایک طرف تو حملے بڑھ رہے ہیں تو دوسری طرف بھارت سرکار جوابی کارروائی کیا کرنی ہے اس پر ابھی غور و خوض جاری ہے۔ سب سے پہلے جوابی فوجی ایکشن پر غور ہوا لیکن جلد ہی اس قدم سے سرکار پیچھے ہٹ گئی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جوابی فوجی ایکشن سے مودی سرکار پیچھے ہٹی اس کی دو اہم وجوہات ہیں پہلا کہ پاکستان نیوکلیائی حملہ کرسکتا ہے جو سبھی کے لئے انتہائی تباہ کون ہوتا۔ دوسری وجہ ہمیں لگتا ہے کہ ہماری فوج میں اتنا بھروسہ نہیں کہ وہ پاکستان پر حملہ کرسکے۔ اخبار اکنامکس ٹائمس مسلح افواج اور دوسری ڈیفنس ریسرچ سے وابستہ کئی ماہرین اور فوج کے موجودہ کئی اور ریٹائرڈ حکام سے اس بارے میں بات کی زیادہ تر کا کہنا تھا کہ فوج میں لڑائی کی بیشک خود اعتمادی کی کمی ہے۔ مثال کے طورپر اسالٹ رائفل ،کاربائن، گولہ داغنے والی بندوق جیسے بنیادی ہتھیاروں کی کمی ہے۔ انہیں خریدنے کی کارروائی میں کافی تاخیر ہورہی ہے۔ پاکستان فوج کے پاس بہتر ہتھیار ہیں۔ اس کے علاوہ مسلح فورس کے حوصلے میں بھی کافی کمی آئی ہے۔ ان حالات کودیکھتے ہوئے مودی حکومت کو جلد ہی سمجھ میں آگیا کہ پاکستان کو سیدھے جنگ کی دعوت دینا سمجھداری نہیں ہوگی۔ پھر تجویز آئی کہ اگر بھارت سندھو آبی معاہدہ منسوخ کرتا ہے تو پاکستان میں ہائے توبہ مچ جائے گی۔ایسی صورت میں بھارت اس پر من چاہا دباؤ ڈال سکے گا۔ سندھو آبی معاہدے کے جائزے اور بھارت کے غور و فکر کی خبر آنے پر منگلوار کو پاکستان کے وزیر اعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا کہ اگر بھارت نے سندھو آبی معاہدہ منسوخ کیا تو ہم انٹرنیشنل کورٹ جائیں گے۔ سمجھوتہ منسوخ ہوگاتو پاکستان جنگ چھیڑنے کی کارروائی کے طور پر لے گا۔ سرتاج نے پاکستان کی قومی اسمبلی کو بتایا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت بھارت سمجھوتے سے ایکطرفہ نہیں ہٹ سکتا۔ کارگل اور سیاچن جنگ کے دوران بھی اسے منسوخ نہیں کیا گیا۔ حکومت ہند ہی بہرحال سندھو آبی معاہدے کا جائزہ لینے کے اشارے دئے ہیں۔ ان دو باتوں سے یہ اشارے ملتے ہیں۔۔۔ ایک وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔ دوسرا معاہدے کے جائزے کے لئے ایک انٹرنل منسٹری ٹاسک فورس کی تشکیل کا وزیر اعظم کا فیصلہ۔ یہ ٹاسک فورس اس بارے میں پتہ لگائے گی کہ یہ سمجھوتہ اب کارگر ہے یا نہیں؟ اب اس متبادل پر غور ہورہا ہے کہ بھارت پاکستان کو دئے گئے تجارتی لحاظ سے ترجیحاتی ملک کا درجہ ختم کرے یا نہیں؟ بھارت نے 1996ء میں اپنی طرف سے پاکستان کو انتہائی پسندیدہ ملک کا درجہ دیا تھا۔ یہ درجہ ملنے کے بعد پاکستان اس بات کو لیکر کافی چوکس رہتا ہے کہ بھارت اسے تجارت میں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ اسی درجے کی وجہ سے پاکستان کو بھارت سے زیادہ درآمدات کوٹہ و کم ٹریڈ ٹریف ملتا ہے۔ بتادیں کہ بھارت نے یکطرفہ درجہ دیا ہے۔ کئی بار بات کرنے کے باوجود پاکستان نے اب تک بھارت کو ایسا درجہ نہیں دیا۔ ہم پاکستان سے جنگ نہیں چاہتے۔ ہماری لڑائی دہشت گردی سے ہے اور وہ بھی ہماری سرزمین سے چھیڑی گئی ۔ ہمارے جوان روز مر رہے ہیں اور پور ے دیش کے عوام جوانوں سمیت پاکستان کو سبق سکھانا چاہتے ہیں۔
پاکستان کو ایک بات سمجھ لینی چاہئے کہ اب وہ یا تو سدھر جائے یا پھر سنگین نتیجے بھگتنے کے لئے تیار رہے کیونکہ بھارت ایک جمہوری دیش ہے یہاں کی حکومت عوام کے جذبات کے مطابق ہی کارروائی کرتی ہے۔ اگر پاکستان نہیں سدھرا تو پھر کارروائی ہوگی۔
رہی فوجی کارروائی کی تو آج بھارت نے اپنا بدلہ لے لیا ہے۔ ہندوستانی فوج کی طرف سے فوجی آپریشن کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل رنویر سنگھ اور بھارت سرکار کی طرف سے وزیر اطلاعات و نشریات ونکیانائیڈو ہندوستانی فوج کمانڈوز کے ذریعے کنٹرول لائن کے پیچھے دو کلو میٹر اندر ہیلی کاپٹروں سے 7 آتنکی کیمپوں کو تباہ کردیا ہے ساتھ ہی 38 دہشت گردوں کو بھی مار گرایا اور پاکستانی فوج کے جو جوان دہشت گردوں کی سکیورٹی میں تعینات تھے انہیں بھی مار ڈالا گیا۔ فوجی کمانڈو اپنا نشانہ پورا کرکے بخیریت واپس آگئے اور کسی بھی جوان کو کوئی کھرونچ تک نہیں لگی۔ اری حملے کے بعد بھی کشمیر میں فوج نے دراندازی کی دو بڑی کوششوں کو ناکام بنا دیا اور بانڈی پورہ میں ایک دہشت گرد کو مار گرانا کا دعوی کیا ہے۔ حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کے 8 جولائی کو مارے جانے کے بعد وادی میں جاری تشدد میں اب تک82 لوگ مارے جاچکے ہیں۔ جموں کشمیر میں اڑی فوج کے بیس کیمپ پر ہوا حملہ 26 برسوں کاسب سے بڑا حملہ ہے اس میں18 جوان شہید ہوئے۔ وسطی ایشیا میں دہشت گردی کے واقعات پر نگاہ رکھنے والے ساؤتھ ایشیا ٹیررازم (ایس ٹی اے ٹی پی) کے مطابق 2016ء میں 11 ستمبر تک جموں وکشمیرمیں آتنک وادی حملوں میں 46 جوان شہید ہوئے تھے۔ اگر ایتوار کو اڑی حملے میں ہلاک تعداد کو جوڑلیا جائے تو 18 ستمبر تک شہید ہونے والے جوانوں کی تعداد 63 ہو جاتی ہے۔2010ء میں اس صوبے میں 69 جوان شہید ہوئے تھے۔ یعنی 2010ء کے بعد اس سال سب سے زیادہ جوان شہید ہوئے ہیں۔ وزارت داخلہ کی 2015-16 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں سرحد پار سے دو دہائیوں سے زیادہ وقت میں (1990 سے) جاری دہشت گردی میں 2015ء تک 4961 جوان تیز ہوچکے ہیں۔ اس دوران 13921 شہریوں کی جان گئی۔ حال ہی میں پارلیمنٹ نے مانا تھا کہ اس سال سرحد پار سے دہشت گردوں کی گھس پیٹھ میں اضافہ ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ جموں و کشمیر میں کئی جگہ سکیورٹی فورس پر بڑے حملے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں ایک رپورٹ کے مطابق سرحد پار 200 دہشت گرد دراندازی کی فراق میں ہیں۔ 30جون2016 ء تک کشمیر میں دراندازی کی 90 کوششیں کی گئیں جبکہ30 جون2015 ء تک صرف29 کوششیں ہوئیں تھیں۔ راجیہ سبھا میں حال ہی میں ایک سوال کے جواب میں وزیر ہنسراج اہیر نے بتایا تھا کہ ایک طرف تو حملے بڑھ رہے ہیں تو دوسری طرف بھارت سرکار جوابی کارروائی کیا کرنی ہے اس پر ابھی غور و خوض جاری ہے۔ سب سے پہلے جوابی فوجی ایکشن پر غور ہوا لیکن جلد ہی اس قدم سے سرکار پیچھے ہٹ گئی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جوابی فوجی ایکشن سے مودی سرکار پیچھے ہٹی اس کی دو اہم وجوہات ہیں پہلا کہ پاکستان نیوکلیائی حملہ کرسکتا ہے جو سبھی کے لئے انتہائی تباہ کون ہوتا۔ دوسری وجہ ہمیں لگتا ہے کہ ہماری فوج میں اتنا بھروسہ نہیں کہ وہ پاکستان پر حملہ کرسکے۔ اخبار اکنامکس ٹائمس مسلح افواج اور دوسری ڈیفنس ریسرچ سے وابستہ کئی ماہرین اور فوج کے موجودہ کئی اور ریٹائرڈ حکام سے اس بارے میں بات کی زیادہ تر کا کہنا تھا کہ فوج میں لڑائی کی بیشک خود اعتمادی کی کمی ہے۔ مثال کے طورپر اسالٹ رائفل ،کاربائن، گولہ داغنے والی بندوق جیسے بنیادی ہتھیاروں کی کمی ہے۔ انہیں خریدنے کی کارروائی میں کافی تاخیر ہورہی ہے۔ پاکستان فوج کے پاس بہتر ہتھیار ہیں۔ اس کے علاوہ مسلح فورس کے حوصلے میں بھی کافی کمی آئی ہے۔ ان حالات کودیکھتے ہوئے مودی حکومت کو جلد ہی سمجھ میں آگیا کہ پاکستان کو سیدھے جنگ کی دعوت دینا سمجھداری نہیں ہوگی۔ پھر تجویز آئی کہ اگر بھارت سندھو آبی معاہدہ منسوخ کرتا ہے تو پاکستان میں ہائے توبہ مچ جائے گی۔ایسی صورت میں بھارت اس پر من چاہا دباؤ ڈال سکے گا۔ سندھو آبی معاہدے کے جائزے اور بھارت کے غور و فکر کی خبر آنے پر منگلوار کو پاکستان کے وزیر اعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا کہ اگر بھارت نے سندھو آبی معاہدہ منسوخ کیا تو ہم انٹرنیشنل کورٹ جائیں گے۔ سمجھوتہ منسوخ ہوگاتو پاکستان جنگ چھیڑنے کی کارروائی کے طور پر لے گا۔ سرتاج نے پاکستان کی قومی اسمبلی کو بتایا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت بھارت سمجھوتے سے ایکطرفہ نہیں ہٹ سکتا۔ کارگل اور سیاچن جنگ کے دوران بھی اسے منسوخ نہیں کیا گیا۔ حکومت ہند ہی بہرحال سندھو آبی معاہدے کا جائزہ لینے کے اشارے دئے ہیں۔ ان دو باتوں سے یہ اشارے ملتے ہیں۔۔۔ ایک وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔ دوسرا معاہدے کے جائزے کے لئے ایک انٹرنل منسٹری ٹاسک فورس کی تشکیل کا وزیر اعظم کا فیصلہ۔ یہ ٹاسک فورس اس بارے میں پتہ لگائے گی کہ یہ سمجھوتہ اب کارگر ہے یا نہیں؟ اب اس متبادل پر غور ہورہا ہے کہ بھارت پاکستان کو دئے گئے تجارتی لحاظ سے ترجیحاتی ملک کا درجہ ختم کرے یا نہیں؟ بھارت نے 1996ء میں اپنی طرف سے پاکستان کو انتہائی پسندیدہ ملک کا درجہ دیا تھا۔ یہ درجہ ملنے کے بعد پاکستان اس بات کو لیکر کافی چوکس رہتا ہے کہ بھارت اسے تجارت میں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ اسی درجے کی وجہ سے پاکستان کو بھارت سے زیادہ درآمدات کوٹہ و کم ٹریڈ ٹریف ملتا ہے۔ بتادیں کہ بھارت نے یکطرفہ درجہ دیا ہے۔ کئی بار بات کرنے کے باوجود پاکستان نے اب تک بھارت کو ایسا درجہ نہیں دیا۔ ہم پاکستان سے جنگ نہیں چاہتے۔ ہماری لڑائی دہشت گردی سے ہے اور وہ بھی ہماری سرزمین سے چھیڑی گئی ۔ ہمارے جوان روز مر رہے ہیں اور پور ے دیش کے عوام جوانوں سمیت پاکستان کو سبق سکھانا چاہتے ہیں۔
پاکستان کو ایک بات سمجھ لینی چاہئے کہ اب وہ یا تو سدھر جائے یا پھر سنگین نتیجے بھگتنے کے لئے تیار رہے کیونکہ بھارت ایک جمہوری دیش ہے یہاں کی حکومت عوام کے جذبات کے مطابق ہی کارروائی کرتی ہے۔ اگر پاکستان نہیں سدھرا تو پھر کارروائی ہوگی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں