سندھو آبی معاہدہ جاری رکھا جائے یا توڑا جائے

اڑی حملہ کے بعد پاکستان کو سبق سکھانے کے اقدامات میں سے ایک 56 سال پرانا سندھو آبی معاہدہ جاری رکھنے کے سوال پر بھی بحث ہورہی ہے۔ اس معاہدے کے نفع نقصان پر بھی غور و خوض ہوا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ سندھو آبی معاہدے کے بارے میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک فریقی ہے اور اس پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پڑوسی ملک پاکستان سے ہوا سندھو آبی معاہدہ 56 سال پرانا ہے۔ دونوں ملکوں کے رشتوں میں تلخی آنے کے چلتے ماضی میں بھی کئی بار اس بین الاقوامی آبی معاہدے پر جائزے کی بات کہی گئی ہے۔ اس بار معاملہ زیادہ سنگین ہے اس لئے بھارت سرکار نے اپنی جائزہ میٹنگ میں یہ طے کیا ہے کہ وہ اپنے حصے کے پانی کی پوری دیکھ بھال کرے گی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر اتنا بھی کردیا جائے تو پاکستان کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ جو آبی معاہدہ ہوا ہے اس کے مطابق جتنا پانی ہمیں لینا ہے وہ بھی ہم نہیں لے پا رہے ہیں۔ ہم اپنا حصہ پاکستان کو دیتے رہے ہیں کیونکہ اس پانی کے استعمال کیلئے ہم جموں و کشمیر میں باندھ اور آبی بجلی پروجیکٹس، نہریں وغیرہ نہیں بنا سکے۔ دراصل دہشت گردانہ سرگرمیوں کے بڑھنے سے ہم ایسا نہیں کرپائے۔ اگر ہم اپنے حصے کے پانی کو پاکستان جانے سے روک دیں تو پڑوسی ملک میں ہائے توبہ مچنا طے ہے۔ پاکستان کے ایک پرائیویٹ چینل پر ایک تجزیہ نگار نے یہ قیاس کیا ہے کہ اگر بھارت سندھو آبی معاہدے کو منسوخ کرتا ہے تو وہاں نیوکلیائی بم گرانے سے بھی زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی معیشت اور عام زندگی میں سندھو آبی معاہدے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے سمجھا جاسکتا ہے کہ اس وقت ماہرین نے یہ بات کہی کیوں؟ معاہدے سے پاکستان کو جو پانی ملتا ہے وہ نہ صرف وہاں 90 فیصدذرعی پیداوار میں اہم کردار نبھاتا ہے، بلکہ پنجاب اور سندھ کا پورا علاقہ پینے کے لئے بھی اسی پانی کا استعمال کرتا ہے۔ سندھو آبی معاہدے پر بھارت کی طرف سے کی گئی تھوڑی سی کارروائی بھی وہاں آبی بحران پیدا کرسکتی ہے۔سال 2008ء میں بھارت نے جب بگلیہار باندھ بنانے کی شروعات کی تھی تب پاکستان نے الزام لگایا تھا کہ اس کے پنجاب صوبے میں گیہوں کی پیداوار کم ہونے لگی ہے۔ بھارت کے کشن گنگا پروجیکٹ کے خلاف بھی پاکستان عالمی بینک میں معاملہ درج کرا چکا ہے ۔ بتا دیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان 1960ء میں سندھو آبی معاہدہ ہوا تھا۔ ورلڈ بینک کی ثالثی کے بعد سابق وزیر اعظم جواہرلال نہرو اور پاکستان کے صدر ایوب خاں نے اس پر دستخط کئے تھے۔ معاہدے کے تحت 6 ندیوں کے پانی کا بٹوارہ طے ہوا جو بھارت سے پاکستان جاتی ہیں۔ 3 مشرقی ندیوں (راوی، ویاس اور ستلج) کے پانی پر بھارت کو پورا حق دیا گیا۔ باقی 3 مغربی ندیوں( جہلم، چناب و سندھو ) کے پانی کے بہاؤ کو بغیر رکاوٹ پاکستان کو دینا تھا۔ بھارت میں مغربی حصے میں بہہ رہی ندیوں کے پانی کا بھی استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن آبی معاہدے میں طے پیمانوں کے مطابق ان کا قریب20 فیصدی حصہ بھارت کے لئے ہے۔ معاہدے پر عمل کے لئے سندھو کمیشن بنا جس میں دونوں ملکوں کے کمشنر شامل ہیں، وہ ہر چھ مہینے میں جائزہ لیتے ہیں اور تنازعات نپٹاتے ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ کشمیر کے لئے پاکستان کی کوششیں اس بات سے وابستہ ہیں کہ وہاں کی ندیوں کے پانی پر کنٹرول کر سکیں۔ اگر پاکستان کو یہ معاہدہ ختم ہوتا دکھائی دے گا تو وہ کشمیر میں تباہ کن سرگرمیاں تیز کرسکتا ہے۔ پانی کی کمی سے پاکستان اقتصادی طور پر تباہ ہوجائے گا۔ بھارت ۔ پاک کے درمیان جنگ ہونے اور لگاتار کشیدگی کے باوجود یہ معاہدہ برقرار ہے۔ اسے تعاون کے گلوبل ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔
دنیا بھر میں بھارت کی ساکھ کو پانی بند کرنے سے نقصان ہوسکتا ہے۔ پانی کو روکنے سے پہلے ان ندیوں کے کنارے بسے شہروں کو ڈوبنے سے بچانے کا بھی انتظام کرنا ہوگا۔ جموں وکشمیر سمیت پنجاب کے بڑے شہر اس کے دائرے میں آجائیں گے۔ بھارت کے پاس فی الحال کوئی اسٹوریج صلاحیت نہیں ہے۔ اگر بھارت نے پاکستان کا پانی بند کیا تو چین بھی بھارت کے ساتھ وہی کرسکتا ہے۔ ستلج اور سندھو کا عروج چین میں ہے اور چین برہمپتر کے ساتھ بھی وہی کرسکتا ہے۔ ویسے معاہدہ ختم کرنے کی دلیلوں میں یہ بھی دم ہے کہ پاکستان بین الاقوامی اسٹیج پر بھارت کے خلاف دباؤ بنانے کے لئے اس معاہدے کا استعمال کرسکتا ہے۔ بگلہار اور کشن گنگا کے معاملے پر انٹرنیشنل فورم میں جاسکتا ہے۔ وہ جموں و کشمیر میں ترقی کے پروجیکٹ کو روکنے کیلئے اس معاہدے کا استعمال کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ترقی نہ ہونے سے وہاں ناراضگی بھڑکے۔ جموں و کشمیر میں بھی معاہدہ ختم کرنے کی مانگ ہوتی رہی ہے، آخر اس کا حل کیاہے؟ ایک حل یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ بھارت مغربی ندیوں کے پانی کو اپنے حق کے مطابق پورا استعمال کرنا شروع کردے۔ معاہدے کے تحت بھارت ۔ پاک کو اطلاع دے کر کافی پانی اسٹور کرسکتا ہے اور بجلی بنا سکتا ہے۔ اس سے پاکستان کو سخت سندیش جا سکتا ہے۔ پاکستان کی ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ سرکار اور فوج میں اہم کردار نبھانے والے فوج کا پنجاب صوبہ سندھو کا سب سے زیادہ پانی استعمال کرتا ہے جبکہ بلوچستان، خیبر پختونخواہ جیسی شمال مغربی سرحدی صوبے جیسے پسماندہ علاقوں کوبرائے نام ہی پانی ملتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟