عمر خالد کی خودسپردگی سوچھی سمجھی حکمت عملی کا حصہ

ملک کی بغاوت کے ملزم جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طالب علم عمر خالد اور انی بارم بھٹا چاریہ آخر کار منگل کو دیر رات دہلی پولیس کے سامنے سرنڈر کردیا تھا۔ یا یوں کہیں کہ وہ سپردگی کرنے پر مجبور ہوگئے۔ منگل کے روز دہلی ہائی کورٹ سے راحت نہ ملنے پر یہ دونوں آدھی رات میں جے این یو کیمپس سے باہر نکلے اور خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔ دونوں کے خلاف وسنت کنج تھانے میں معاملہ درج ہے۔ اور انہیں تھانے کے ایس ٹی ایف دفتر میں رکھا گیا ہے دونوں طلباء کو دفعہ 124Aکے تحت گرفتار کیاگیا ہے۔ابھی بھی راما ناگا اور انند آشو توش نے سرنڈر نہیں کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ دہلی پولیس نے بڑی سمجھد اری اور صبر سے کام لیا ہے۔ اور وہ ان سیکولرسٹوں کی چال میں نہیں پھنسی۔ وہ کشیدگی چاہتے تھے کہ پولیس جے ا ین یو میں داخل ہوں اور ایک نیا اشو بنائے لیکن پولیس نے تحمل سے کام لیا۔ ہمیں تو یہ بھی لگتا ہے کہ عمر خالد اور دیگر طلباء اچانک سامنے آنا ایک سوچھی سمجھی حکمت عملی اور تیاری کا حصہ ہے۔ قانونی مشورے کے ساتھ تیاری کی گئی ہیں۔ ساتھ ہی پارلیمنٹ کے سیشن کو ذہن میں رکھا گیا ہے۔ وہ 9 فروری کے بعد سے لاپتہ رہنے کے بعد عمر ٹھیک پارلیمنٹ سیشن سے سامنے آئے اورانہوں نے سیشن کے دوران گرفتاری دینے پر زیادہ فائدہ ملنے کی امید ہے۔ ساتھ ہی لگتا ہوگا کہ سیشن چلنے کی وجہ سے سرکار دباؤ میں رہے گی۔ کیا عمر خالد اور ان کے ساتھی جے این یو میں چھپے بیٹھے تھے؟ کیا ان کو چھپانے کے لئے جے این یو کے اساتذہ کا رول تھا؟ جس طرح سے 10 دنوں کی لوکا چھپی کے بعد اچانک یہ طلباء سامنے آئے وہ ایک شش وبنچ پیدا کرتی ہیں۔کہ کہیں یہ طالب علم کیمپس میں ہی کسی لیکچرار کے یہاں تو نہیں چھپے ہوئے تھے جے این یو کے اسٹوڈنٹ یونین کے جوائنٹ سیکریٹری سوربھ شرما کی مانیں تو سبھی ملزم کیمپس میں ہی چھپے ہوئے تھے۔اے وی بی پی نے جے این یو کے کچھ ٹیچروں پر الزام لگایا ہے کہ ان تعلقات علیحدگی پسندوں، ماؤں وادیوں اورپاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے ہیں جے این یو میں اے وی بی پی کے عہدے دار آلوک سے پیر کو کیمپس میں اخبار نویسیوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ 9 فروری کے واقعہ کے ملزمان نے ایک بار پھر کیمپس میں آواز بلند کی ہے یہ ہی نہیں، ملک کی بغاوت کے ملزم عمر خالد نے جے این یو کے کچھ طلباء کی توجہ بھی مرکوز کی ہے۔ ہمیں شک ہے کہ ان ٹیچروں سے انہیں شے ملی ہیں انہوں نے کہا ہے کہ ایسی ٹیچروں کی جانچ کے لئے جوڈیشیل کمیٹی بنانے کی ضرورت ہے چند مٹھی بھر لوگ جے این یو کو بدنام کررہے ہیں۔ اگر پولیس جانچ ہوگی تو صاف ہوجائے گا کہ کیمپس میں کہاں ان ملکی باغیوں کو پناہ ملی ہیں۔ جے این یو معاملے میں سنیچراور ایتوار کو خالد سے وابستگی رکھنے والے جے این یو اوردہلی یونیورسٹی کے قریب 40 ٹیچروں سے پوچھ تاچھ کی گئی ہیں۔ ساتھ ہی دس سنیئر صحافیوں سے سوال جواب کئے گئے۔ 30دیگر اساتذہ اور طلباء کو پوچھ تاچھ کے لئے نوٹس دیا گیا ہے۔ جانکاری کے مطابق جن ٹیچروں سے پوچھ تاچھ کی گئی ہیں وہ مختلف لیفٹ تنظیموں سے جوڑے ہوئے ہیں جانچ میں شامل جنرنلسٹ اور آزاد تصنیف کا کام کرتے رہے ہیں۔ اور لیفٹ تحریکوں سے کسی نہ کسی طرح سے وابستگی رہی ہیں ساتھ ہی جے این یو کے طلباء بھی رہے ہیں۔ فرار ہونے سے پہلے عمر کے موبائل فون ان سبھی سے بات چیت ہوتی تھیں حالانکہ پولیس نے ان لوگوں کے شامل ہونے پر کچھ بولنے سے انکار کیا ہے۔ لیکن ان لوگوں سے عمر اور اس کے ساتھیوں کی جانکاری شیئر کرنے کے لئے کہا گیا ہے پوچھ تاچھ ان ٹیچروں نے عمر کے ٹھکانے کے بارے میں واقفیت ہونے سے انکار کیا ہے۔ عمر خالد کو جھوٹا پھنسایا جارہا ہے یا وہ دیش دشمن ہے اب سچائی سامنے آجائے گی۔ عدالت میں سب کچھ پتہ چل جائے گا۔
 (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!