جے این یو کی بساط پر سیاسی روٹیاں سینکتی سیاسی پارٹیاں

پچھلے کئی دنوں سے جاری جے این یو تنازعے کے لئے گناہگار کون کون ہے یہ تو اب عدالتیں ہی طے کرے گی لیکن سیاسی پارٹیاں بحال اس اشو کو لے کر اپنی سیاسی فائدے ونقصان کے لئے اپنی روٹیاں سینکنے میں کوئی کسر چھوڑ رہی ہیں۔ حب الوطنی اور ملک دشمن گیرپالے کھینچ کرا یک دوسرے کو نیچا دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہیں۔ دراصل تلخ حقیقت یہ ہے کہ جس دن سے نریندر مودی دیش کے وزیراعظم بنے اسی دن سے ایک طرف کانگریس پارٹیاں اور مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ان کے خلاف ہوگیا ہے۔ آپ پچھلے دو سال دیکھے شاید ہی کوئی ایسا اشو ہو جب کانگریس و اس اقلیتی طبقے نے مودی کی مخالفت نہ کی ہو۔ جہاں تک لیفٹ پارٹیوں کا سوال ہے تقریبا ساری دنیا میں سمٹ چکی لیفٹ پارٹیوں کی بھی موقع کی تلاش تھی۔ جب وہ اپنی کھوئی ہوئی زمین حاصل کرسکے۔ ان کی مدد کررہی ہے الیکٹرانک چینل کے اینگر اور مینجمنٹ۔ ٹی وی پر روز یہ کسی نہ کسی بہانے مودی اور ان کی حکومت کو نقطہ چینی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج الیکٹرانک چینل بھی خیموں میں بٹ گئے ہیں کچھ تو کھل کر مخالفت کررہے ہیں اور کچھ حمایت میں ہے ۔ اس سیاسی جنگ میں اصل اشو دب رہے ہیں۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی 19 فروری کو کیا ہوا؟ 9 فروری جے ا ین یو ایک ریلی میں پاکستان زندہ باد، کشمیر کی آزادی اور بھارت کی بربادی تک نعرے لگے تھے نعرے بازی میں باہر سے آئے ہوئے لوگوں کے ساتھ نہ صرف جے این یو کے طلبا و طالبات تھی بلکہ اس میٹنگ میں کنہیا کمار بھی موجود تھا اس لئے ریلی تو ہوئی اور اس میں ملک دشمن نعرے لگے۔ یہ تو طے ہے کہ اب سوال اٹھتا ہے کہ کنہیا کمار نے نعرے لگائے یا نہیں؟ کیا اس پر ملک کی بغاوت کا مقدمہ درج ہوناچاہئے تھا یا نہیں؟ دہلی پولیس کمشنر بھیم سین بسئی نے کئی بار دوہرایا ہے کہ پولیس کے پاس کنہیا کے خلاف ٹھوس ثبوت ہے جو عدالت میں پیش کردی گئے ہیں۔ ویڈیو ریکارڈنگ صحیح ہے یا نہیں غیر جانبدارانہ اور سینٹفک جانچ سے ہی طے ہوپائے گا اس کا پتہ لگانے کے لئے دہلی پولیس اور بھارت مخالف نعروں کے ٹیپ اور کنہیا کمار کی آواز کی فورنسک جانچ کرا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر وائر ہوئے الگ الگ ویڈیو میں کنہیا کمارکے ملک مخالف نعرے لگانے اور نہیں لگانے کے دعوے کئے جارہے ہیں۔ یہ فورنسک جانچ سے ہی صاف ہوپائے گا کہ ملک مخالف نعروں میں کنہیا کی آواز تھی یا نہیں؟ دہلی پولیس کادعوی ہے کہ ویڈیو ٹیپ کے علاوہ پولیس کے پاس 17 گواہ ہے انہوں نے پولیس کے سامنے کنہیا کے خلاف بیان درج کرایا ہے زیادہ تر نے کہا ہے کہ کنہیا نے دیش مخالف نعرے لگا رہاتھا اور اس پروگرام کاحصہ تھا جس میں ملک مخالف نعرے بازی ہوئی۔ کنہیا نے نہ تو نعروں کو روکنے کے لئے کہا اورنہ ہی میٹنگ سے ہٹا۔ 17گواہوں میں زیادہ جے این یو کے ہی لوگ ہے لیکن یہ سیاسی پارٹیاں کورٹ کے فیصلہ کاانتظار نہیں کرناچاہتی اور کنہیا کو بے قصور ثابت کرنے میں لگی ہوئیں ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ا گر کنہیا نے دیش ملکی بغاوت نہیں کی اور ان پر زبردستی یہ الزام لگایا گیا ہے کہ عدالتیں ہے کہ وہ اسے ملکی بغاوت سے آزاد کردے گی ہماری لڑائی جے این یو سے نہیں ہے اور یونیورسٹی ایسی بھی نہیں ہے کہ وہ ایک بڑا ادارہ ہے جو مٹھی بھر طلبا ء کی وجہ سے آج نشانے پر آگیا ہے اگر آج جے این یو غلط وجوہات سے سرخیوں میں ہے تو اس کے لئے سرکار، یونیورسٹی انتظامیہ اور طلباء سبھی ذمہ دار ہے ملک مخالف سرگرمیوں کے لئے یونیورسٹی میں گرفتاری بھلے ہی پہلی بار ہوئی ہوں لیکن اظہارآزادی کی آڑ میں ایسی حرکتیں ہوں جو بھارت کے ٹکڑے کرنے کی نعرے بازی سبب بنے اگر پہلے ہی ایسی سرگرمیوں کے خلاف کارروائی کی جاتی تو یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا۔ 80 کی دہائی میں جے این یو کیمپس میں اندرا گاندھی کے خلاف نعرے بازی کو سیاسی احتجاج مان کر بھلا دیاجائے لیکن 2000 میں کارگل میں لڑنے والے بہادر نوجوانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کو قطعی بھلایا نہیں جاسکتا ہے۔ کارگل جنگ ختم ہونے کے بعد ہی جے این یو کیمپس میں بھارت پاکستان مشاعرے کا انعقاد کیاگیا مشاعرے کا لطف اٹھانے کے لئے کارگل میں پاکستان کے ساتھ لڑنے والے فوج کے میجر کے کے شرما اور میجر ایل کے شرما بھی پہنچ گئے۔ ایک پاکستانی شاعر کے ہند مخالف شاعری شعر کا ان کارگل کے دونوں جاں بازوں نے مخالفت کی تھی الٹا ان دونوں جوانوں کی وہاں کے طلباء نے پٹائی کردی۔ان کوادھر مری حالت میں ہسپتال میں بھرتی کیا گیا اس وقت یہ اشو پارلیمنٹ میں بھی اٹھا تھا اس وقت کے وزیر دفاع جارج فرنانڈیز زخمی میجروں کو دیکھنے ہسپتال بھی گئے تھے لیکن طالب علم اور طلباء کی مخالفت کی وجہ سے کوئی کارروائی نہیں ہوپائے۔ سرکار نے ایک جانچ کمیٹی بنائی ہے لیکن اس کو جے این یو میں داخل نہیں ہونے دیا۔ 2010 میں پورا دیش میں چھتیس گڑھ نکسلیوں کے ہاتھوں 76جوانوں کے مارے جانے کا غم منارہا تھا۔ جب جے این یو میں اس کی خوشی میں پارٹی چل رہی تھی۔ اخباروں میں اس کی خبر چھپنے کے باوجود اس وقت کی یوپی اے سرکار نے کوئی کارروائی کرنا ضروری نہ سمجھا۔اس کے بعد جے این یو میں کچھ طلباء کے سیدھے نکسلیوں کے ساتھ رشتے بھی ملے اور گڑھ چیرولی میں جے این یو طالب علم ہیم مشرا کو گرفتار بھی کیا گیا تھا پولیس کی جانچ سے صاف ہوگیا ہے کہ بھارت کی بربادی کے لئے پروگرام منعقد کرنے کی سازش رچنا والا عمر خالد بھی ہیم مشرا کی طرح ڈی ایس یو کا ممبر ہے آج بدقسمتی ہے کہ جے این یو کے طلباء کی سرگرمیوں پر لگام لگانے کی جگہ کچھ سیاسی پارٹیاں اپنی روٹیاں سینکنے میں لگی ہوئی ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟