بھارت میں گھٹن محسوس کرنے لگا عامرخاں

جمہوریت میں سب کو اپنے حساب سے اپنی سوچ سمجھ سے اپنے نظریات رکھنے کا اختیار ہوتا ہے اور اس پر کسی طرح کی روک نہیں ہے۔ یہ اختیار عام آدمی سے لیکر اداکار تک کو ہے۔ اداکار عامر خاں کو بھی ہے لیکن جب پبلک میں ایک بیان دیتے ہیں تو اس کا ردعمل ہونا بھی فطری ہے اور خاص طور پر عامر خاں جیسے بڑے اداکار کچھ کہیں گے تو اس کی حمایت اور مخالفت میں دونوں طرح کا ردعمل ہوگا۔اس لئے کہتے ہیں کہ اداکاروں کو بہت سوچ سمجھ کر پبلک میں بیان دینا چاہئے۔ اس سے پہلے عامر اور اس کے حمایتی یہ کہیں کہ میڈیا نے ان کی باتوں کوتوڑ مروڑ کر پیش کیا ہے میں قارئین کو بتانا چاہتا ہوں کہ عامر خاں نے کہاں اور کیا کہا۔ پیرکو رام ناتھ گوئنکاجرنلزم ایوارڈ تقریب میں عامر نے کہا کہ دیش میں جو کچھ بھی ہورہا ہے، ہم اخباروں میں اس کے بارے میں پڑھتے رہتے ہیں، ٹی وی پر دیکھتے رہتے ہیں، اداکار نے کہا کہ وہ خود کو بھی محسوس کرتے ہیں کہ پچھلے 6 یا8 مہینوں میں عدم تحفظ کااحساس بڑھا ہے۔
عامر نے بتایا کہ جب میں نے گھر پر کیرن سے اس بارے میں بات کی توانہوں نے کہا کہ کیا ہمیں بھارت چھوڑ کر چلے جانا چاہئے؟ انہوں نے آگے کہا کہ کیرن اپنے بچوں کی سلامتی کیلئے فکر مند ہے وہ آس پاس کے ماحول سے بھی فکر مند ہے،وہ روزانہ اخبار کھولنے سے ڈرتی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس دیش میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ بھارت دیش کے کروڑوں لوگوں میں ایک معمولی آدمی رہے عامر خاں کو دلوں میں بسایا۔ اربوں کی املاک کا مالک بنایا۔ ایک ایک فلم کو ہٹ کیا۔ کل تک بھارت اتولیہ تھا آج دیش میں اچانک آپ کو اور آپ کی بیوی کو خوف نظر آرہا ہے؟ ایک ناظرین کا ردعمل تھا کہ عامر خاں کے بیان نے مجھے مایوس کردیا۔ مجھے اپنی رواداری یا عدم رواداری جو بھی کہیں، لیکن شرم آنے لگی ہے کہ ہم اتنے صبر آزما کیوں ہے۔
کوئی بھی ہمیں اس دیش کو کتنی بھی گالی دے لے اور ہم اظہار آزادی اور رواداری کے نام پر صرف چپ اس لئے ہیں کہ وہ ہمیں پھر سے عدم رواداری کاعلمبردار نہ کہہ دے۔ ہم اس کے اختیارات کی حفاظت کی خاطر اپنے دیش کی بے عزتی کیوں کروا رہے ہیں؟ اگر عامر کو ڈر کا ماحول محسوس ہوتا ہے تو انہیں عراق،شام، افغانستان، سوڈان جاکر دیکھناچاہئے، پاکستان بھی جاسکتے ہیں۔ ایک طرف ایک اور شخص کا کہنا ہے کہ ہماری رواداری کا یہی حل ہے کہ بھارت کے ہندو مسلمان بڑے بٹوارے کے بعد بھی عامر جیسے لوگ سپر اسٹار ہیں دوسری بات اگر کیرن راؤ نے دیش چھوڑنے کی کہی بھی تھی توعامر کو میڈیا میں اسے بتانے کی کیا ضرورت تھی؟ گھر کی بات گھر پر ہی رہنے دیتے مگر اسے ہوا دینے تھی۔ دراصل یہ سارا سرکار مخالف ماحول نام نہادمصنفوں ،آرٹسٹوں، اپوزیشن پارٹیوں نے میڈیا کے ساتھ مل کر بنایا ہے۔ بالی ووڈ اداکار عامر خاں کے عدم رواداری کے مسئلے پر کھلبلی مچانے والے اس بیان پر جانے مانے اداکار انوپم کھیر نے زور دار حملہ کیا ہے۔ کھیر نے ٹوئٹر پر لکھا ہے پریہ عامر خاں، کیا آپ نے کبھی کیرن سے پوچھا ہے کہ وہ کس دیش میں جانا چاہتی ہیں؟ کیا آپ نے انہیں یہ بتایا کہ اس دیش نے آپ کو عامرخاں بنایا ہے؟ انوپم یہیں نہیں رکے ایک دوسرے ٹوئٹ میں انہوں نے عامر خاں سے پوچھا کہ پریہ عامر خاں کیا آپ نے کیرن راؤ کو یہ بتایا ہے کہ آپ نے دیش میں اس سے برے دور کو بھی دیکھا ہے لیکن کبھی دیش چھوڑنے کا خیال آپ کے من میں نہیں آیا۔
انکریٹیبل انڈیا آپ کیلئے 7-8 مہینے میں ہی عدم رواداری کا بن گیا ہے؟عدم رواداری کے اس ماحول میں آپ 2 ملین ہندوستانیوں کو کیا صلاح دیں گے؟ دیش چھوڑنے یا تبدیلی اقتدار کی؟ مشہور مصنفہ تسلیمہ نسرین نے پوچھا عامر خاں صاحب آپ جس دیش میں ہندو بھگوانوں کا اپمان کرکے پی کے جیسی فلم سے 300 کروڑ روپے کما سکتے ہیں وہ دیش عدم رواداری کا کیسے ہوسکتا ہے؟ کیا آپ ایسی فلم پاکستان یا سعودی عرب میں بنا سکتے تھے؟ عامر خاں انکریٹیبل انڈیا کے ہر قسط کے لئے 3 کروڑ روپے لیتے ہیں۔آپ واپس دیش کو کیا دیتے ہیں؟ ’ستیہ میں جیتے ‘ کے لئے3 کروڑ روپے لیتے ہیں۔
آپ بات کرتے ہیں بھارت میں عدم رواداری کی آپ سے تو اکشے کمار کئی درجہ بہتر ہندوستانی ہیں جو15 ہزار غریب کنبوں کو، 180 کسان کنبوں کو مدد کرتے ہیں۔جس میں سوکھے سے متاثرہ مہاراشٹر کے کسانوں کو90 لاکھ روپے کی مدد دی؟ عامر نے صرف اپنے پرستاروں کو ہی ٹھیس نہیں پہنچائی بلکہ دیش کو بھی نیچا دکھایا۔ دیش چھوڑنا معمولی بات نہیں ہوتی۔ بیوی کی بات کا ڈھول پیٹنے سے پہلے انہیں پتہ ہوناچاہئے تھا کہ وہ کون لوگ ہیں جن کے سامنے حقیقت میں دیش چھوڑ جانے کی نوبت آگئی ہے۔وہ شام یا عراق کے لوگ ہیں ،وہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی اقلیتیں بھی ہیں ، کیا عامر اور ان کی بیوی خود کو بھی اسی حالت میں پارہے ہیں؟ اچھا ہوکہ عامر یہ بھی بتادیں ان کے خوابوں کو رواداری کون دینے والا ہے؟ افسوس تو اس بات کا ہے کہ عامر خاں نے دیش چھوڑ جانے کے انتہائی سنگین موضوع پر اتنے ہلکے طریقے سے بات کرڈالی۔ دیش چھوڑ کر داؤد ابراہیم بھی بھاگے ہیں۔اس میں بڑی بات کیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!