پوتن کی پالیسیوں اور ساکھ کی اگنی پریکشا
اسلامک اسٹیٹ کی بڑھتی دہشت کے درمیان منگل کے روز اس مسئلے میں ایک نیا خطرناک موڑ آگیا۔ ترکی نے شام سرحد کے پاس روس کے ایک جنگی جہاز اس۔ یو 24- کو مار گرایا۔ ترکی کا دعوی ہے کہ یہ روسی جنگی جہاز اس کی ہوائی حدود میں داخل ہوگیا تھا اور کئی بار وارننگ دینے کے بعد بھی جب وہ واپس نہیں لوٹا تو ہمارے ایف۔16 جہاز نے کارروائی کرتے ہوئے اسے مار گرایا۔ وہیں روس نے اس سے انکار کرتے ہوئے کہا نہ تو کوئی وارننگ دی گئی اور نہ ہی ہمارا جنگی جہاز ترکی کی سرحد میں گھسا۔ وہ پورے وقت تک شام ہی میں تھا۔دہائیوں کے بعد نیٹو کے کسی اتحادی دیش (ترکی) نے کسی روسی جنگی جہاز کو گرایا۔ ظاہر سی بات ہے کہ روس اور ترکی میں اس سے کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ حملے سے آگ بگولہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے کہا کہ یہ واقعہ پیٹھ میں چھرا گھونپنے جیسا ہے۔ اس واقعہ سے ترکی اور روس کے رشتوں پر سنگین نتائج دکھائی پڑیں گے۔ پوتن نے کہا کہ روسی جہاز پر شام کی سرحد کے اندر ہی حملہ کیا گیا۔ جب یہ ترکی کی حد سے ایک کلو میٹر دور تھا۔ یہ جہاز شام کی سرحد کے4 کلو میٹر اندر گرا۔ پوتن کا بیان ترکی کے اس دعوے کے ٹھیک الٹ ہے کہ روسی جہاز کو مار گرانے سے پہلے کئی بار اس بات کی وارننگ دی گئی تھی کہ وہ ترکی کی ہوائی حدود میں اڑان بھر رہا تھا۔ غصے میں نظر آئے پوتن نے کہا کہ یہ واقعہ ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپنے جیسا ہے جسے دہشت گردوں کے ساتھیوں نے انجام دیا ہے۔آج جو بھی ہوا ہے اسے کچھ اور نہیں کہہ سکتے۔
ہمارا جہاز شام کی حدود میں ایک ایف۔16 جہاز سے چھوڑے گئے ہوا سے ہوا میں مار کرنے والے میزائل سے اڑایا گیا اور یہ ترکی کی سرحد سے 4 کلو میٹر دور شام میں ہی تھا۔ یہ جہاز 6 ہزار میٹر کی اونچائی پر اڑ رہا تھا اور جب اس پر حملہ کیا گیا تب یہ ترکی سرحد سے ایک کلو میٹر دور تھا۔ پوتن کا کہنا ہے کہ روسی پائلٹوں اور جہازوں نے ترکی کو کوئی دھمکی نہیں دی وہ تو شام میں آئی ایس سے لڑنے کا فرض نبھا رہے تھے۔ انہوں نے آتنک وادیوں کی فنڈنگ کے بارے میں کہا کہ کافی پہلے ہم نے ثابت کیا تھا کہ آئی ایس کے قبضے والے علاقے میں تیل اور تیل کی پیداوار بڑی مقدار میں ہے جو ترکی کے علاقے میں آتے ہیں۔اب دہشت گردی سے لڑنے والے، ہمارے جیسوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا جاتا ہے اور جہاز گرائے جاتے ہیں۔ دوسری طرف ترکی کی فوج کا دعوی ہے کہ اس کے ہوائی علاقے میں گھسنے پر روسی فوج نے بھی یہی بات کہی ۔ترکی کے وزیر اعظم نے کہا جو کوئی ہماری سرحد میں گھسے گا اسے مارگرانے کا ہمیں پورا حق ہے۔ یہ واقعہ ایسے وقت ہوا ہے جب پچھلے ہفتے ہی ترکی نے روسی سفیر کو طلب کر وارننگ دی تھی کہ اگر روسی ایئر فورس نے ترکی کے دیہاتوں میں بمباری نہیں روکی تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔ حالانکہ اس واقعہ کے بعد دونوں ملکوں نے اشارے دئے ہیں کہ وہ اس معاملے کو آگے نہیں بڑھانا چاہتے اور یہ نہیں چاہتے کہ دونوں میں ٹکراؤ بڑھے لیکن پوتن کو جاننے والوں کا خیال ہے کہ وہ اس بے عزتی کا بدلہ ضرور لے گا۔ دیکھا جائے تو اس واقعہ سے روس کو بھاری دھکا لگا ہے۔ ترکی جیسا چھوٹا دیش آج روس کو چنوتی دینے لگا ہے۔ اس سے روس کی ساکھ کو دھکا لگا ہے۔ پھر ایک امریکی جہاز(ایف۔16 ) نے جدید روسی جنگی جہاز (ایس ۔یو۔24) کو مار گرایا ہے۔ اس سے روسی فوجی ہتھیاروں کی مارکیٹ گرے گی۔ تیسرا خطرہ یہ ہے کہ اب روس اور نیٹو دیش آمنے سامنے آگئے ہیں۔
نیٹو کے 28 ملک ممبر ہیں۔ نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن اور روس دہائیوں بعد ایسی خطرناک صورتحال میں پہنچے ہیں۔ روسی جنگی جہاز کو اس واقعہ پر ماہرین کے مطابق یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شام میں لڑ رہے دیشوں کا غرور کس قدر انتہا پر ہے۔ اس کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔ مغربی دنیا کو شام میں روس کے ہوائی حملے شروع سے ہی ناگوار گزر رہے ہیں۔ دراصل امریکہ اور اس کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ شام میں صدر بشر الاسد کو ہٹائے بغیر حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ یہ اسد کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہیں ماسکو پوری طرح اسد کی حمایت میں کھڑا ہوا ہے۔ اس وجہ سے اس پر یہ الزام لگتے رہے ہیں کہ وہ آئی ایس کے بجائے اسد باغیوں پر بم برسارہا ہے۔ ترکی نے جب روسی جنگی جہاز گرایا تو تصویروں میں نظر آرہا ہے کہ جنگی جہاز میں ہوا میں ہی دھماکہ ہوگیا تھا۔
اس علاقے پر آئی ایس سے الگ دوسرے لڑاکو گروپوں کا قبضہ ہے۔اس میں القاعدہ کی برانچ نصرہ فرنٹ بھی شامل ہیں۔ تصویروں میں جنگی جہاز کے دونوں پائلٹ باہر نکلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ باغی ترکمان فورس کے ایک ڈپٹی کمانڈر کا کہنا ہے کہ اس کے لڑاکوں نے دونوں پائلٹوں کو گولی مار دی ہے۔ حالانکہ ابھی پائلٹوں کے مستقبل کی تصویر صاف نہیں ہوئی۔ کل ملاکر حالات بے قابو اور کشیدہ ہیں۔ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ مشرقی وسطیٰ میں لڑائی اور تیز ہوسکتی ہے۔ میں نے پہلے بھی اسی کالم میں لکھا تھا کہ اب لڑائی اسد بنام آئی ایس سے زیادہ روس بنام امریکہ اور نیٹو میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔
ہمارا جہاز شام کی حدود میں ایک ایف۔16 جہاز سے چھوڑے گئے ہوا سے ہوا میں مار کرنے والے میزائل سے اڑایا گیا اور یہ ترکی کی سرحد سے 4 کلو میٹر دور شام میں ہی تھا۔ یہ جہاز 6 ہزار میٹر کی اونچائی پر اڑ رہا تھا اور جب اس پر حملہ کیا گیا تب یہ ترکی سرحد سے ایک کلو میٹر دور تھا۔ پوتن کا کہنا ہے کہ روسی پائلٹوں اور جہازوں نے ترکی کو کوئی دھمکی نہیں دی وہ تو شام میں آئی ایس سے لڑنے کا فرض نبھا رہے تھے۔ انہوں نے آتنک وادیوں کی فنڈنگ کے بارے میں کہا کہ کافی پہلے ہم نے ثابت کیا تھا کہ آئی ایس کے قبضے والے علاقے میں تیل اور تیل کی پیداوار بڑی مقدار میں ہے جو ترکی کے علاقے میں آتے ہیں۔اب دہشت گردی سے لڑنے والے، ہمارے جیسوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا جاتا ہے اور جہاز گرائے جاتے ہیں۔ دوسری طرف ترکی کی فوج کا دعوی ہے کہ اس کے ہوائی علاقے میں گھسنے پر روسی فوج نے بھی یہی بات کہی ۔ترکی کے وزیر اعظم نے کہا جو کوئی ہماری سرحد میں گھسے گا اسے مارگرانے کا ہمیں پورا حق ہے۔ یہ واقعہ ایسے وقت ہوا ہے جب پچھلے ہفتے ہی ترکی نے روسی سفیر کو طلب کر وارننگ دی تھی کہ اگر روسی ایئر فورس نے ترکی کے دیہاتوں میں بمباری نہیں روکی تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔ حالانکہ اس واقعہ کے بعد دونوں ملکوں نے اشارے دئے ہیں کہ وہ اس معاملے کو آگے نہیں بڑھانا چاہتے اور یہ نہیں چاہتے کہ دونوں میں ٹکراؤ بڑھے لیکن پوتن کو جاننے والوں کا خیال ہے کہ وہ اس بے عزتی کا بدلہ ضرور لے گا۔ دیکھا جائے تو اس واقعہ سے روس کو بھاری دھکا لگا ہے۔ ترکی جیسا چھوٹا دیش آج روس کو چنوتی دینے لگا ہے۔ اس سے روس کی ساکھ کو دھکا لگا ہے۔ پھر ایک امریکی جہاز(ایف۔16 ) نے جدید روسی جنگی جہاز (ایس ۔یو۔24) کو مار گرایا ہے۔ اس سے روسی فوجی ہتھیاروں کی مارکیٹ گرے گی۔ تیسرا خطرہ یہ ہے کہ اب روس اور نیٹو دیش آمنے سامنے آگئے ہیں۔
نیٹو کے 28 ملک ممبر ہیں۔ نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن اور روس دہائیوں بعد ایسی خطرناک صورتحال میں پہنچے ہیں۔ روسی جنگی جہاز کو اس واقعہ پر ماہرین کے مطابق یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شام میں لڑ رہے دیشوں کا غرور کس قدر انتہا پر ہے۔ اس کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔ مغربی دنیا کو شام میں روس کے ہوائی حملے شروع سے ہی ناگوار گزر رہے ہیں۔ دراصل امریکہ اور اس کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ شام میں صدر بشر الاسد کو ہٹائے بغیر حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ یہ اسد کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہیں ماسکو پوری طرح اسد کی حمایت میں کھڑا ہوا ہے۔ اس وجہ سے اس پر یہ الزام لگتے رہے ہیں کہ وہ آئی ایس کے بجائے اسد باغیوں پر بم برسارہا ہے۔ ترکی نے جب روسی جنگی جہاز گرایا تو تصویروں میں نظر آرہا ہے کہ جنگی جہاز میں ہوا میں ہی دھماکہ ہوگیا تھا۔
اس علاقے پر آئی ایس سے الگ دوسرے لڑاکو گروپوں کا قبضہ ہے۔اس میں القاعدہ کی برانچ نصرہ فرنٹ بھی شامل ہیں۔ تصویروں میں جنگی جہاز کے دونوں پائلٹ باہر نکلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ باغی ترکمان فورس کے ایک ڈپٹی کمانڈر کا کہنا ہے کہ اس کے لڑاکوں نے دونوں پائلٹوں کو گولی مار دی ہے۔ حالانکہ ابھی پائلٹوں کے مستقبل کی تصویر صاف نہیں ہوئی۔ کل ملاکر حالات بے قابو اور کشیدہ ہیں۔ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ مشرقی وسطیٰ میں لڑائی اور تیز ہوسکتی ہے۔ میں نے پہلے بھی اسی کالم میں لکھا تھا کہ اب لڑائی اسد بنام آئی ایس سے زیادہ روس بنام امریکہ اور نیٹو میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں