مودی کی کامیاب خارجہ پالیسی رنگ لا رہی ہے

پی ایم کی ذمہ داری سنبھالنے کے ساتھ ہی خارجہ پالیسی کے سیکٹر میں سرگرمی دکھاتے رہے وزیر اعظم نریندر مودی کی انتھک کوششوں کے نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔ عرصے سے اپنے لئے اقوام متحدہ کونسل یو این ایس سی میں مستقبل سیٹ کی مانگ کررہے بھارت کو اقوام متحدہ میں بڑی کامیابی ملی ہے۔ سکیورٹی کونسل کی توسیع کی بات چیت پر اتفاق رائے ہو گیا ہے جسے بھارت کے لئے اچھی خبر مانا جارہا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ بھارت کی تجویز کو یہ منظوری اس کے روایتی حریف چین کے احتجاج کو درکنار کر ملی ہے۔ جو خود تو اس سپریم ادارے میں ویٹو کا حق حاصل کرکے مستقل ممبر ہے لیکن بھارت کی ممبر شپ یا تجاویز میں وہ ہمیشہ رکاوٹیں ڈالتا رہا ہے۔ کیونکہ کونسل کا ڈھانچہ کافی عرصے سے ایک ہی دھرے پر چل رہا ہے اور یوروپ و پانچ مستقل ممبران کے مفادات کے حق میں اس کا جھکاؤ صاف صاف دکھائی پڑتا ہے۔ اس وجہ سے بہت سے دیش پچھلی دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے سکیورٹی کونسل کی توسیع اور اس کے موجودہ ڈھانچے میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ دوسری طرف سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل ممبروں میں سے زیادہ تر نہ صرف جوں کے توں پوزیشن بنائے رکھنے کے حمایتی ہیں بلکہ دنیا کی اس سب سے بڑی پنچایت میں اب تک تبدیلی سے متعلق کوئی ریزولیوشن بھی نہیں آیا تھا اس لحاظ سے سکیورٹی کونسل کی توسیع سے متعلق بحث کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ذریعے اتفاق رائے سے منظوری فطری طور پر ایک تاریخی واقعہ بتایا جاسکتا ہے۔سکیورٹی کونسل میں مستقل ممبر شپ کی دعویداری کررہے بھارت کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی کیلئے یہ ایک بڑی ڈپلومیٹک جیت ہے۔بھارت لمبے عرصے سے اس کی مانگ کرتا آرہا ہے اور مرکز میں اقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ہر غیر ملکی دورے میں یہ اشو اٹھایا ہے۔ اب اقوام متحدہ کی میٹنگ میں 200 ممبران ملکوں نے سیکورٹی کونسل میں اصلاح اور توسیع کی تجویز دینے والے دستاویزات کو اگلے سال تک تیار کرنے کے لئے اتفاق رائے جتا دی ہے۔ فیصلہ لینے والے اس سپریم ادارے میں 15 دیش ہیں جن میں روس، چین، برطانیہ، فرانس اور امریکہ سمیت پانچ کو مستقل ممبر شپ حاصل ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے جب مختلف ملکوں نے تحریری تجویز دے کر بتایا کہ ریزولوشن میں کیا لکھا جائے۔ امریکہ روس اور چین نے اس کارروائی میں حصہ نہیں لیا لیکن بھارت کی کوششوں پر اس سے پانی نہیں پھرا ہے۔ پہلے اسے بھارت کی مستقل ممبر شپ کی مانگ کو جھٹکا دینے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے اور جواب در جواب تک اقتصادی طاقت بننے و اقوام متحدہ کی امن فوج میں یہ قابل قدر کردار نبھانے اور ان کے ممبر دیشو کی حمایت ہونے کی وجہ سے بھارت کو سکیورٹی کونسل میں مستقبل ممبر شپ تو ملنی چاہئے البتہ یہ اتنا آسان بھی نہیں ہوگا۔ فی الحال یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس سے بھارت کی مستقل ممبر شپ کی امید تو بنتی ہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟