اسمارٹ گاؤں تو ضرور بناؤ لیکن پہلے خوشک سالی سے تو نمٹو

وزیر اعظم نریندر مودی کی سرکار نے دیہی علاقوں میں سڑکیں اور ریلوے توسیع کے ساتھ اسمارٹ گاؤں بنانے کی کئی اہم اسکیموں کو بنیادی شکل دینے کی تیاری کرلی ہے جس کا تہہ دل سے ہم خیر مقدم کرتے ہیں لیکن دیش کے ان داتا کسان کی زندگی آج بھی خوشحالی اور بھرپور بارش پر منحصر ہے اور اس سمت میں سرکار سے زیادہ اسے مانسون پر منحصر رہنا پڑتا ہے۔ مانسون کی بے رخی نے کم و بیش دیش کے آدھے حصے کا جو برا حا ل کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے ہماری رائے میں آج پہلی ضرورت گاؤں کے وجود کو بچانے کی دکھائی پڑتی ہے۔ مانسون کی حالانکہ ابھی بدائی کا رسمی اعلان تو نہیں ہوا لیکن اب تک کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ لگتا ہے کہ مسلسل دوسرے برس دیش کو سوکھے سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس وقت دیش کا 44 فیصد حصہ بارش کی کمی سے لڑ رہا ہے۔ اترپردیش ، ہریانہ، پنجاب جیسے کھیتی کرنے والے راجیہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ہندوستانی محکمہ موسمیات کے مطابق پورے دیش میں ابھی تک عام سے 16 فیصدی بارش کم ہوئی ہے۔آئی ایم ڈی کی مانیں تو پیر تک دیش کے محض 6فیصدی حصے میں عام سے زیادہ برسات درج کی گئی ہے۔ 
وہیں50فیصد بارش علاقے میں کم ہوئی ہے۔ نازک صورتحال اترپردیش کی ہے۔ پردیش کے مشرقی حصے میں قریب42 اور مغربی حصے میں 44 فیصدی کم بارش ہوئی ہے۔ مہاراشٹر میں مراٹھواڑہ کے تین ضلع زبردست سوکھے کی زد میں ہیں۔ اس سال جنوری سے اب تک بیڑھ ، عثمان آباد اور لاتور میں400 سے زیادہ کسان موت کو گلے لگا چکے ہیں۔ خوشک سالی زدہ اضلاع میں بارش نہ ہونے کے سبب خریف کی فصل پوری طرح سے چوپٹ ہوچکی ہے۔ کم بارش ہونا اور سوکھا پڑنا بھارت کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دیش میں2005 سے2015 تک یعنی 11 برسوں میں 7 برس ایسے رہے ہیں جب عام سے کم یا بہت کم بارش ہوئی ہے۔ موجودہ برس اس معاملے میں سب سے خراب سال ثابت ہوا۔ اس سال اب تک عام سے 13فیصدی کم بارش ہوئی ہے۔ بھارت کے کچھ حصوں کو چھوڑدیا جائے تو بارش کے سبب کھیتی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ تجربہ تو یہی بتاتا ہے کہ خراب مانسون کا سیدھا اثر جی ڈی پی پر پڑتا ہے جس میں ذرعی سیکٹر کا اشتراک15 فیصدی کے آس پاس ہوتا ہے۔ سرکار نے8دفیصدی ترقی شرح کی امید جتائی تھی جس کے برعکس پچھلے15 روز میں ہی اس کے7فیصدی تک رہنے کا اندازہ ظاہر کیا گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ ایشیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت آخر کب تک قدرت کی محتاج بنی رہے گی۔ جب تک دیش کی دوتہائی آبادی آج بھی کھیتی کے بھروسے پر گزر بسر کرتی ہے۔ بھولنا نہیں چاہئے کہ جن چار ریاستوں میں آج خوشک سالی منڈرا رہی ہے وہاں سے دیش کی غذائی پیداوار کا قریب ایک تہائی حصہ بنتا ہے۔ سوکھے کی چنوتی صرف کھیتی تک ہی محدود نہیں ہے۔ لگاتار مانسون کم ہونے سے زمین کی آبی سطح بھی نیچے چلی جاتی ہے جس سے نمٹنے کے لئے سنجیدہ کوششوں کی سخت ضرورت ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!