بڑھتی منشیات مصنوعات سے اسپین برباد ہورہا ہے

منشیاتی مصنوعات اور بڑھتی نشے کی لت سے ہندوستان ہلکان ہوتا جارہا ہے۔ معاملہ چاہے نونہالوں میں بڑھتی نشے کی عادت ہو یا پھر دہشت گردی کو بڑھانے کے لئے منشیاتی مصنوعات کی اسمگلنگ ہو ، دونوں ہی سے دیش کی پریشانی بڑھنا فطری ہی ہے۔ پچھلے دنوں خبر آئی تھی کہ گوا میں بڑی تعداد میں اسکولی بچوں کے نشہ آور چیزوں کے استعمال کی لت کا شکار ہونے کی خبر آئی ہے۔ یہ تشویش کا موضوع ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس سے سماج کو اس بات کی فکر ہے کہ اس حالت میں مستقبل کی کیسی تصویرابھر رہی ہے۔ اگر سماج میں کسی بھی طرح کے نشے چاہے وہ شراب کا ہو یا دوسری منشیات کا کوئی حد یا ہچک نہیں ہے تو اس ماحول کا اثرنازک دل اور دماغ والے بچوں پر پڑنا طے ہے۔ آج گوا میں منشیات کی لش کے شکار لوگوں کی بڑی تعداد میں لڑکے ہیں۔یہاں راجدھانی دہلی میں ریو پارٹیوں میں بڑھتے نشے کی لت کی خبریں اکثر آتی ہیں۔ کروڑوں روپے کی منشیات کے ساتھ اسمگلر پکڑے جاتے ہیں۔ گوا کی ایک غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ آج کی تاریخ میں گوا کے اسکولی بچے بڑی تعداد میں منشیات منصوعات کے عادی بنتے جارہے ہیں۔ تنظیم کے چلانے والوں کا کہنا ہے کہ پہلے اسکول سے پاس ہوجانے کے بعد نوجوانوں میں منشیات کی لت بڑھتی دیکھی جاتی رہی ہے لیکن پچھلے ڈھائی تین سالوں میں علاقے کے بچوں میں بھی منشیات کے استعمال کے تئیں للک بڑھتی جارہی ہے۔ گوا جیسی چھوٹی سی ریاست کی تشویش پورے دیش کے پس منظر میں بہت بڑی ہوجاتی ہے۔ وجہ اسکول کالجوں سے لیکر گاؤں دیہات تک اور مہذب طبقے سے لیکر مزدور طبقے تک دیش کی آبادی کی ایک بہت بڑی شرح فیصد نشیلی ادویا کی لت کی عادی ہے بلکہ دیش کا ایک طاقتور مستقبل منشیات کی مصنوعات کی اسمگلنگ میں ملوث ہوکر مجرمانہ دنیا کا حصہ بن چکا ہے۔ مانا جارہا ہے کہ نشہ خوری کی لت دیش کے اندر اس قدر اپنا جال پھیلا چکی ہے کہ 10 سال کی عمر میں داخل ہوتے ہوتے تمام بچے نشہ خوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ خاص کر مزدور طبقہ اس جہنم میں اپنا پورا مستقبل خاک میں ملا دینے کے لئے گامزن ہے۔ ادھر دیش کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے بین الاقوامی سطح پر نشیلی منصوعات کی اسمگلنگ میں آتنک وادی گروپوں کے ملوث ہونے کی طرف نشاندہی کر عالمی برادری کو خبردار رہنے کی ہدایت دی ہے۔ یہ چنوتی سنگین ہے اور اس کے نتیجے پیڑھیوں تک دیش کو کھوکھلا کرنے والے ہوسکتے ہیں۔ حالانکہ اس کاروبار کی کوئی جغرافیائی حد طے نہیں ہے لیکن افیم جیسی مصنوعات دیشوں کا پڑوسی ہونے اور دنیا کے کئی خطرنا ک دہشت گرد تنظیموں کے نشانے پر ہونے کے ناطے بھارت کے لئے یہ چنوتی کہیں اور زیادہ سنگین ہے کیونکہ یہ چیلنج اکیلے بھارت کیلئے نہ ہوکر عالمگیر ہے۔ اس کے ازالہ اجتماعی عالمی کوششوں سے ہی ہوگا اور اس کی طرف وزیر داخلہ نے توجہ دلائی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟