9 سال بعد انصاف ملا لیکن وہ بھی ادھورا ہے

آخر کار9 سال پہلے11 جولائی 2006ء کو ممبئی کی 7 لوکل ٹرینوں میں ہوئے سلسلہ وار بم دھماکوں کے مقدمے میں جمعہ کے روز ممبئی کی عدالت نے اپنافیصلہ سنادیا ہے۔ ممبئی کی لوکل ٹرینوں میں ایک کے بعد ایک 7سلسلہ وار بم دھماکوں میں 80 سے زائد لوگوں کی جان گئی تھی اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے تھے۔ قصورواروں میں ایک شخص کمال احمد انصاری نے نیپال بارڈر کے راستے پاکستانی دہشت گردوں کو ممبئی تک لانے کاکام کیا۔ اس نے ایک لوکل ٹرین میں بم بھی رکھا جو ماٹنگا ریلوے اسٹیشن پر پھٹا تھا۔ اسپیشل جج ڈی ۔شندے نے دفعہ اور سرکاری وکیلوں کی دلیلیں سننے کے بعد13 میں سے12 افراد کو قصوروار قراردیا۔ عدالت نے ان 12 ملزمان کوآئی پی سی کی دفعہ 302 و مکوکا کے تحت قصوروار پایا۔ اس میں موت کی سزا تجویز ہے اور سرکاری وکیل راجہ ٹھاکرے نے کہا کہ اس معاملے میں ہم بھی سزائے موت کی مانگ کریں گے۔ اس وقت کے اے ٹی ایس چیف کے۔ پی رگھونشی کاکہنا ہے کہ ملزمان کے خلاف ہم نے جو ثبوت پیش کئے تھے عدالت نے انہیں صحیح مانا۔ ایک ملزم کو بری کرنے کے فیصلے کو ہم دیکھیں گے اور پھر سوچیں گے کے ہم سے غلطی کہاں ہوئی۔
اس فیصلے سے متاثرہ خاندان کو ضرور تھوڑی راحت ملی ہوگی۔ ان دھماکوں میں 188 لوگ مارے گئے تھے اور800 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ زخمی لوگوں کو علاج کے سلسلے میں کئی مہینوں تک ہسپتال میں بھرتی رہنا پڑا تھا اور بھاری تعداد میں لوگ معزور ہوگئے تھے۔ ان دھماکوں سے متاثرہ لوگوں اور ان کے خاندانوں کے نقصان کی بھرپائی تو نہیں ہوسکتی لیکن ممبئی کی اسپیشل مکوکا عدالت کے فیصلے سے قصورواروں کو سزا ملنے سے انہیں سکون ضرور ہوا ہوگا۔ اس حملے کو دیش کے خلاف جنگ کی شکل میں دیکھا گیا جس میں پاکستان میں قائم آتنکی تنظیم لشکر طیبہ کا ہاتھ تھا۔ اس میں قصوروار لوگوں کو سزا سنانے میں جو دیری ہوئی اس سے دہشت گردی سے نمٹنے کی دیش کے عزم کو لیکر بھی کئی سوال اٹھتے ہیں؟ یہ بار بار کہا جاتا ہے کہ دہشت گرد حملوں کو انجام دینے والے لوگوں کو سزا سنانے میں حتی الامکان اور ممکن عزم کا ثبوت دیا جانا چاہئے لیکن ایسا نہیں ہو پارہا ہے۔ اس کے چلتے دہشت گردوں اور ان کے حمایتیوں اور ان کے سرپرستوں کو جیسا سندیش جانا چاہئے وہ نہیں جا پارہا ہے۔ 9 سال کی دیری اس لئے زیادہ ہے کیونکہ ابھی معاملہ بالائی عدالتوں میں جائے گا اور تعجب نہیں کہ آخری فیصلہ آنے میں ایک دو سال اور لگ جائیں۔ عام طور پر دیری کئی سطحوں پر ہوتی ہے۔ پہلے تو پولیس کی جیسی جانچ پڑتال ہے اس سے تو سبھی واقف ہیں اس کے بعد ہماری عدالتی کارروائی کہیں زیادہ وقت لیتی ہے اور بچاؤ فریق بھی سماعت ٹالنے ،گواہی وغیرہ میں مقدمے کو لمبا کھینچتے ہیں۔ رہی سہی کثر سپریم کورٹ بھی نکال دیتی ہے۔ اس معاملے میں قریب قریب 2 سال تک عدالتی کارروائی اس لئے ٹھپ رہی کیونکہ سپریم کورٹ نے مقدمے پر روک لگا دی تھی۔ اس معاملے میں قصورواروں کو عنقریب سزا سنائی جاسکتی ہے۔مطلوب دہشت گردوں کے بغیر یہ سزا ادھوری مانی جائے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟