سنگین لاپروائی کے سبب 3 افراد کی موت: ذمہ دار کون

دیش کی راجدھانی میں اگر ہسپتالوں کا یہ چونکانے والا حال ہے تو اوپر والا ہی بچائے دیش کے غریبوں کو چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہات میں بہتر علاج کی سہولت میسر نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق پچھلے دنوں لاڈو سرائے کے باشندے لکشمن اور ببیتا راوت کے اپنے 7سالہ بیٹے اویناش کو ڈینگو کی وجہ سے مال چند، ساکیت ،میکس ہسپتال سمیت کئی پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھرتی کرانے لے گئے تھے لیکن انہیں یہ کہہ کر واپس کردیا گیا کہ بیڈ خالی نہیں ہے۔اس کے بعد ایم بی روڈ پر واقع ہسپتال میں بچے کو بھرتی کرایا لیکن اس کی طبیعت اتنی بگڑ چکی تھی کہ اویناش نے دم توڑدیا۔ شام قریب 5 بجے لکشمن اور اس کے پڑوسی بچے کی لاش لے کر انتم سنسکار کے لئے چھترپور شمشان گھاٹ پہنچے۔ رات8 بجے لکشمن لوٹے اور سیدھے گھر چلے گئے۔ دیر رات قریب2 بجے لکشمن کے سسر نے پڑوسی گیانندر دیو آشیش کو فون کیا کے دونوں میاں بیوی کمرے میں نہیں ہیں اور بیڈ پر ایک سوسائڈ نوٹ پڑا تھا۔ لوگوں نے ان کی تلاش شروع کی۔ چھت سے انہوں نے دیکھا دونوں خون سے لت پت بلڈنگ کے پیچھے واقعہ ایم سی ڈی کنیا آدرش ودیالیہ کے کمپلیکس میں پڑے ہیں۔دونوں (ماں باپ) نے اپنے ہاتھ ڈوپتے سے آپس میں باندھ رکھے تھے۔ بچے کی موت سے ٹوٹ گئے ماتا پتا نے گھر کی چوتھی منزل سے کود کر خودکشی کرلی۔نہ بچے کی موت ہوتی اور نہ اس سے دکھی ماں باپ خودکشی کرنے پر مجبور ہوتے؟ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان موتوں کے لئے قصوروار کون ہے؟ کیا وہ بڑے ہسپتال ہیں جنہیں اپنی تجوریاں بھرنے کے علاوہ غریب سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ یا پھر ہمارا خراب سسٹم اس کے لئے قصوروار ہے۔ اگر نجی ہسپتالوں کی لوٹ کھسوٹ ایک درمیانے طبقے کے آدمی کسی طرح سے پورا کر بھی دیں پھر بھی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ مریض کا صحیح علاج ہو۔ پچھلے کئی دنوں سے راجدھانی میں ڈینگو کا قہر جاری ہے۔ہر سرکاری ہسپتال میں بستر پر تین تین مریض پڑے ہوئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ایسی ایمرجنسی صورتحال کے لئے ہمارا سسٹم کیا ہے؟ اصلیت میں ہیلتھ سروس دستیاب کرانا سرکار کی (مرکز اور ریاست) کی ذمہ داری ہے۔ سرکار جب اس میں اپنے آپ کو لاچار مانے تو پھر غریب کہاں جائے؟ ڈینگو کا علاج نجی ہسپتال میں کرانے میں غریب و مزدور طبقہ اور درمیانہ طبقے 50 ہزار سے3 لاکھ روپے تک دینے کیلئے کہاں سے انتظام کر پائیں۔ پھر ان کے پاس راستہ کیا بچتا ہے؟ ہمیں اپنے سرکاری ہسپتالوں کا جہاں نظام درست کرنا ہے وہیں ایسی ایمرجنسی اسکیم تیار رہنی چاہئے۔ رہی بات نجی ہسپتالوں کی تو باربار تلخ حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ وہ کہنے کو تو مفت بیڈ رکھتے ہیں لیکن اصلیت کچھ اور ہی ہے۔لکشمن ۔ببیتا اور بیٹے کی موت سے کیا حالات بدلیں گے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!