مہاجرین کے سیلاب سے یوروپ ہلکان

بحران زدہ شام اور نارتھ افریقہ جیسے دیشوں سے مہاجرین کی اچانک آئی باڑھ سے پوری دنیا خاص کر یوروپی ممالک کیلئے ایک بہت بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ لاکھوں مہاجرین کے ہجوم سے پورا یوروپ ہلکان ہے۔ اس کے کچھ دیش اس مسئلے کے تئیں سخت رخ اپناتے ہوئے ان مہاجرین کوا پنے دیش میں داخل ہونے نہیں دے رہے ہیں۔ وہیں آسٹریا اور جرمنی جیسے دیش کھلے دل سے وقت کے مارے ان مظلوموں کا خیر مقدم کررہے ہیں۔ جرمنی کی اتحادی حکومت ان کی دیکھ ریکھ پر ہونے والے 6 ارب یورو (قریب450 ارب) روپے کا خرچ کرنے پر اتفاق رائے جتا چکے ہے۔ حالانکہ کچھ قوم پرست لوگ سرحد کو یوں کھولنے کے چانسلر انجیلا مارکل کے قدم کو غلط ٹھہرا رہے ہیں۔ 
وہیں کچھ ماہرین اسے جرمنی کی دوراندیشی مانتے ہوئے اس کی ضرورت سے جوڑ رہے ہیں۔ شام کے مہاجرین بحران پر عرب کے خلیجی ملکوں کی خاموشی سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ عرب دنیا میں سعودی عرب، کویت، یردن جیسے ملکوں نے ان مہاجرین کے لئے اپنے دروازے بند کردئے ہیں۔ ادھر ہنگری سمیت یوروپی یونین کے کئی ممبرملکوں کی زبردستی کوٹہ پالیسی کی مخالفت بھی کررہے ہیں۔ یوروپی یونین کے جون میں ہوئی چوٹی کانفرنس میں ایک رائے سے ایک ایسے ہی ریزولیوشن کو نامنظور کردیا گیا تھا اس اسکیم میں محض 40 ہزار مہاجرین کو اٹلی، یونان اور ہنگری سے ہٹا کر دیگر ملکوں میں بھیجنے کی تجویز تھی۔حالانکہ ممبر دیش اپنی مرضی سے 32 ہزار مہاجرین کو پناہ دینے کو تیار تھے۔ ایسی بڑی تعداد سے تین گنا مہاجرین کو ممبر ملکوں نے بانٹنے کے لئے پرستاؤ پاس ہونے پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ کچھ ملکوں نے مہاجرین کو پناہ تو دینا مان لیا ہے لیکن کچھ شرائط پر۔ سائپرس نے500 فیریا مہاجرین کو پناہ دینے پر شرط رکھی ہے کہ یہ صرف عیسائی ہیں۔ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان نے کہا ہے کہ شام سمیت تمام جنگ زدہ ملکوں سے آرہے لوگ پناہ کے لئے نہیں آرہے ہیں بلکہ ان کی منشا تارکین وطن کی طرح جرمنی جاکر وہاں کی سہولیات حاصل کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہاجرین محفوظ ہونے کے باوجود سب سے قریب یوروپی ملکوں میں ہی نہیں رک رہے ہیں۔ یوروپ میں بڑی تعداد میں مغربی ایشیا اور افریقہ سے آرہے مہاجرین پر اسپین کے وزیرداخلہ نے وارننگ دی ہے ان کا کہنا ہے کہ شام سے آرہے ان رفیوجیوں کے ذریعے آتنکی تنظیم آئی ایس (اسلامک اسٹیٹ) کے ممبر یوروپ میں گھس پیٹھ نہ کرسکیں اس کے لئے سخت پہرے داری کی ضرورت ہے۔ ادھر یوروپی کمیشن کے چیف جینس کلاڈ جنکٹ ایک پلان پیش کرسکتے ہیں۔ اس پلان میں 1 لاکھ20 ہزار مہاجرین کو یوروپی ممالک میں پناہ دینے کے لئے ضروری کوٹہ سسٹم پیش کیا جاسکتا ہے۔ نیوزی لینڈ کے ایک وزیر نے شام کے مشرقی مہاجرین کو آئی ایس دہشت گردوں سے لڑنے کے لئے واپس بھیجنے کی صلاح دی ہے۔ وزیر موصوف کا کہنا ہے کہ صرف خواتین اور بچوں کو ہی پناہ دی جانی چاہئے۔ مردوں کو اپنے دیش کو آزاد کرانے کی غرض سے واپس بھیجنا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟