قانون منتری کو قانون توڑنے میں گرفتار کیا گیا

ایسا شاید ہی کبھی پہلے ہوا ہو کہ کسی حکومت کے وزیر قانون کو کسی جعلسازی کے معاملے میں گرفتار کیا گیا ہو۔ راجدھانی دہلی میں عام آدمی پارٹی کی سرکار میں وزیر قانون جتیندر سنگھ تومر کو منگلوار کو دہلی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ان پر دو یونیورسٹیوں سے لی گئی سائنس گریجویشن اور قانون کی مارک شیٹ اور مائیگریشن میں جعلسازی ،دھوکہ دھڑی کا الزام ہے۔ شام کو عدالت نے تومر کو 4 دن کی پولیس حراست میں بھیج دیا۔دیررات تومر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جسے منظور کرلیا گیا۔ تومر کے وکیل اب سیشن کورٹ میں چلے گئے ہیں۔ تومر پر آئی پی سی کی دفعہ 420، 467، 468 ،471 ،120(B) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ جعلسازی ، دھوکہ دھڑی ، مجرمانہ سازش سے وابستہ ان دفعات میں غیر ضمانتی بھی شامل ہے۔ ان میں سے کچھ میں توعمر قید تک کی سزا ہے۔ عدالت میں تومر کے وکیلوں نے الزام لگایا کہ دفعہ160 کا نوٹس گرفتاری کے بعد دیا گیا۔ میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ نونیت بدھی راجہ نے پولیس سے پوچھا کہ آپ نے آج ہی نوٹس دیا تھا ،ایسے میں آج ہی گرفتاری کی کیا ضرورت تھی؟ پولیس کی طرف سے کہا گیا ہے کہ تومر بااثر شخص ہیں اور ثبوتوں کو خلد ملد کر سکتے ہیں ۔ مجسٹریٹ نے کہا یہ نوٹس مذاق لگتا ہے۔ عدالت نے پوچھا کیا گرفتاری میں سپریم کورٹ کی گائڈ لائنس کی تعمیل کی گئی تھی؟ پولیس نے ہاں میں جواب دیا۔ آپ پارٹی نے اپنے رد عمل میں کہا کہ تومر کو بغیر کوئی نوٹس اور پہلے سے اطلاع دئے بنا گرفتار کیا گیا۔ ایسی کیا ایمرجنسی تھی کہ تومر کو اس طرح گرفتار کیا گیا؟ معاملہ جب ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے تب اس طرح کی کارروائی کیوں؟ تومر کے کالج کے حلف نامے میں صاف لکھا ہے کہ انہوں نے قانون کی ڈگری پاس کی ہے جبکہ پولیس کا رد عمل کچھ یوں تھا۔ گرفتاری سے پہلے نوٹس بھیجا گیا تھا۔ جانچ 11 مئی سے چل رہی تھی، سوموار کی رات ایف آئی آر درج کرکے کارروائی کی گئی۔ گرفتاری سپریم کورٹ کی گائڈ لائنس اور قانونی ضابطے کے تحت کی گئی ہے۔ تومر نے جتنی بھی یونیورسٹی تھی ڈگری لینے کا دعوی کیا تھا ، جانچ میں وہ سبھی فرضی نکلیں۔ جتیندر سنگھ تومر کی گرفتاری چار مہینے پرانی دہلی سرکار کے سامنے ایک بڑی چنوتی ہے۔ بھلے ہی پختہ ثبوتوں کی بنیاد پر قانون کے دائرے میں وزیر کی گرفتاری کی ہے لیکن اس میں کوئی دورائے نہیں اس واقعے سے صوبے میں جاری سیاسی جنگ اور طول پکڑے گی۔ جب سے دہلی میں عام آدمی پارٹی کی سرکار بنی ہے تبھی سے مرکز اور ریاستی سرکار کے درمیان جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے دہلی میں ڈھنگ سے انتظامیہ نہیں چل پا رہا ہے۔ اسی جنگ کی ایک کڑی ہے تومر کی گرفتاری۔ 
دہلی میں سرکار چلا رہی عام آدمی پارٹی کے لیڈروں نے تومر کی گرفتاری کے بعد کہا کہ دہلی میں ایمرجنسی جیسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ فرضی ڈگری کی بنیاد پر تومر کی گرفتاری بھلے ہی قانونی معاملے ہے لیکن اس کے سیاسی معنی نکالے جانا بھی لازمی ہیں۔ جب سے یہ سرکار بنی ہے تبھی سے لیفٹیننٹ گورنر، وزارت داخلہ سے اس کا ٹکراؤ چل رہا ہے۔ کیجریوال اسمبلی میں کھڑے ہوکر یہ الزام لگاتے ہیں کہ کیندر سرکار لیفٹیننٹ گورنر اور دہلی پولیس کے ذریعے سے دہلی میں اپنا راج چلانا چاہتی ہے۔ حالانکہ مرکز کی طرف سے بار بار یہ صفائی دی گئی ہے کہ اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں اور آئین دہلی کے معاملے میں صاف ہے۔ ایسے حالات پیدا کرنے میں آپ کا بھی کردار ہے۔ جس وقت تومر پر فرضی ڈگری رکھنے کا الزام لگا تھا ہائی کورٹ نے اس کی جانچ کے احکامات دئے تھے تبھی ان کا استعفیٰ لیا جانا چاہئے تھا۔ تومر کی گرفتاری سے دہلی سرکار اور لیفٹیننٹ گورنر، وزارت داخلہ کے درمیان ٹکراؤ بڑھنے والا ہے۔ پورے معاملے میں پس رہی ہے دہلی کی جنتا۔ دہلی میں بہتری کا راستہ تب تک ہموار نہیں ہوگا جب تک دونوں سرکاروں کے درمیان بہتر تال میل نہ ہو۔ اس کا امکان مشکل نظر آرہا ہے۔ کم سے کم مستقبل قریب میں نہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!