لالو ۔نتیش ملن سے بڑھی بھاجپا کی پریشانی

آر جے ڈی چیف لالو پرساد یادو کے چہرے سے صاف دباؤ جھلک رہا تھا۔ وزیر اعلی نتیش کمار کی رہنمائی میں اسمبلی چناؤ لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے پیر کو انہوں نے کئی بار چہرے سے پسینہ صاف کیا۔ شاید موجودہ حالت میں ان کے پاس اور کوئی متبادل نہیں تھا کیونکہ اتحاد نہ ہونے پر سیکولر ووٹوں کا بٹوارہ ہوتا اور چناؤ میں اس کا فائدہ بھاجپا کو مل سکتا تھا۔ دراصل راہل گاندھی کے ماسٹر اسٹروک سے لالو چاروں خانے چت ہوگئے۔ وہ چاہ کر بھی یہ الزام اپنے سر لینا نہیں چاہتے تھے کہ وزیر اعلی کے عہدے کے لئے جنتادل (یو) کے ساتھ اتحاد نہیں کیا۔وہ سی ایم کے عہدے کے امیدوار کے طور پر کانگریس حمایت کے بعد نتیش کا پلڑا کافی بھاری ہوگیا تھا۔ راہل نے نتیش سے مل کر صاف کہہ دیا تھا کہ وہ بہار اسمبلی چناؤ نتیش کمار کی لیڈر شپ میں اتحاد کرنے کے خواہش مند ہیں۔ نتیش کمار کے نام پر لالو پرساد یادو کی رضامندی کے بعد اب بہار کے چناؤ میں بھی دونوں قومی اتحادوں کی سیدھی ٹکر کا ماحول بن گیا ہے۔ اب جنتادل (یو) اور بھاجپا کے ساتھ کانگریس و لیفٹ پارٹیاں بھی مل کر بھاجپا کی لیڈر شپ والے اتحادکو ٹکردیتی نظر آئیں گی۔ اس سے بھاجپا کی سیاسی چنوتیاں بڑھ گئی ہیں۔ بھاجپا کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ دہلی اسمبلی چناؤ کی طرح کسی کو چہرہ بنا کر چناؤ میدان میں اتارنے کا خطرہ مول لے گی یا پھر بغیر چہرے کے میدان میں اتر کر پھروزیر اعظم نریندر مودی کے چہرے پر داؤ لگائے گی؟ پارٹی کے سامنے بڑی قوموں کے ووٹ بینک کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ لالو ۔ نتیش کے ملن کے بعد پسماندہ ذاتوں کے ووٹ بینک میں سیند لگانا بڑی چنوتی ہوگی۔ اسی ملائم سنگھ یادو کی ثالثی کا اثر کہیں یا لالو یادو اور نتیش کی مجبوری۔ دونوں پارٹیاں ایک ساتھ مل کر چناؤ لڑنے پر متفق ہوگئی ہیں۔ فی الحال یہ صاف نہیں ہے کہ آر جے ڈی اور جنتا دل (یو) میں سیٹوں کا بٹوارہ کیسے ہوگا لیکن جب تک یہ حل نہ ہوجائے تب تک یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوگا نتیش اور لالو کے درمیان سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہوگیا۔ بہار کا چناؤ اگر لالو پرساد یادو اور نتیش کمار کے لئے سیاسی وجود کا معاملہ ہے تو ا س میں یہ بھی طے ہوجائے گا کہ نریندر مودی کے اچھے دنوں کا کتنا بھروسہ یہاں کے لوگوں کو لگ رہا ہے۔ یہ چناؤ یہ اشارہ بھی دیں گے کہ طریقی کی دوڑ میں بری طرح سے پچھڑ چکا یہ راجیہ بدلاؤ کے لئے موزوں ہے یا آج بھی فرقے کی اندرونی کھینچ تان اس کے سیاسی فیصلے کا سبب بن رہی ہیں۔ اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پچھلی تقریباً دو دہائی سے جنتادل (یو ) اور آر جے ڈی الگ الگ خیمے میں بٹے ہوئے تھے اور ورکر بنیادی سطح پر ایک دوسرے کے خلاف سرگرم رہے۔ ایسے لیڈروں اور ورکروں کے درمیان اچانک خوشگوار پن اور تال میل پیدا ہو بھی نہیں سکتا۔ بہار اسمبلی چناؤ پر سارے دیش کی نگاہیں ہوں گی۔ بلا شبہ بھاجپا کھلے طور پر یہ قبول نہیں کرسکتی کہ جنتا دل (یو) اور آرجے ڈی کے تال میل سے اس کی چنوتیاں بڑھ گئی ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے اور اسی لئے ضروری ہے کہ وہ اس تال میل کو سنجیدگی سے لیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟