دو ریاستوں کے درمیان ایسی سرپھٹول پہلی باردیکھنے کو ملی!

حکمرانوں کے درمیان ایسی سرپھٹول دیش نے پہلے شاید کبھی دیکھی ہو۔ آندھرا پردیش اور تلنگانہ کی حکومتوں کے درمیان ایسا گھمسان مچا ہوا ہے کہ ایک دوسرے کے وزرائے اعلی کے خلاف تھانے میں معاملے درج ہورہے ہیں۔ وزیر اعلی کی ساکھ امتحان کی شکل لے رہی ہے تو آندھرا و تلنگانہ اس کشیدگی کی چنگاریاں دیکھنے کو مل رہی ہیں جو تقسیم کے دھکے سے پیدا ہوئی ہیں۔ ووٹ کے بدلے نوٹ معاملے میں آندھرا پولیس نے تلنگانہ کے وزیر اعلی چندر شیکھر راؤ کے خلاف اور آندھرا پردیش کے وزیر اعلی چندرابابو نائیڈو کا فون ٹیپ کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا ہے۔ وہیں نائیڈو اور نامزد ممبر اسمبلی کے درمیان ووٹ کو لیکر مبینہ بات چیت کے آڈیو ٹیپ مقامی الیکٹرانک میڈیا میں ٹیلی کاسٹ ہوئے ہیں۔ وشاکھاپٹنم کی شری ڈاؤن پولیس تھانے میں سی ایم راؤ کے خلاف مقامی وکیل این ۔ وی ۔ وی پرساد کی شکایت پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ شکایت میں الزام لگایا گیا ہے کہ تلنگانہ کے وزیر اعلی آندھرا پردیش میں اپنے ہم منصب چندرابابو نائیڈو کے خلاف جاسوسی کرا رہے ہیں۔ راؤ کے خلاف دفعہ464، 674، 471، 166، 167 و120B کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس درمیان نائیڈو اور نامزد ممبر اسمبلی ایلیوس اٹیفنسن کے درمیان مبینہ بات چیت کا آڈیو ٹیپ مقامی چینل پر ٹیلی کاسٹ ہوا ہے۔ آندھرا حکومت کے مشیر (کمیونی کیشن) پی پربھاکر نے بتایا کہ یہ ٹیم گھڑے گئے ہیں اور آندھرا کے وزیر اعلی کی ساکھ خراب کرنے کی گھٹیا کوشش ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ آندھرا اور تلنگانہ صدی کے سب سے گرم موسم کی مار جھیل رہے ہیں۔ گرم ہواؤں کے تھپیڑوں سے وہاں ہزاروں اموات ہو چکی ہیں۔ مشکل کی اس گھڑی پر ضرورت تو یہ ہے کہ عام آدمی کی مدد ہونی چاہئے اور ہو یہ رہا ہے کہ دونوں ریاستی حکومتیں جس طرح اڑیل اور ووٹ بینک کی سیاست میں الجھی ہوئی ہیں وہ واقعی شرمناک ہے۔ تلنگانہ کی حکمراں پارٹی نے بیشک بڑے جوش سے آندھرا پردیش کے وزیر اعلی چندرا بابو نائیڈو کا وہ آڈیو ٹیپ عام کردیا ہے جس میں وہ رشوت کا اشارہ کرتے سنائی پڑ رہے ہیں لیکن اس کے پیچھے سیاست کو صاف ستھری بنانے کا پوتر مقصد ہے یا ووڈ بینک پختہ کرنے کی چال؟ یہ طے کرنا مشکل ہورہا ہے۔ تلخ سچائی تو یہ ہے کہ حیدر آباد کو دونوں ریاستوں کی عارضی راجدھانی اعلان کرنے کے بعد سے دونوں سرکاروں کے درمیان جنگ شروع ہوگئی ہے۔ جس میں وہاں کی پولیس خفیہ ایجنسیاں اور سرکاری ملازمین کا جم کر استعمال ہورہا ہے۔ حالات یہاں تک بگڑ چکے ہیں ایک ہی عمارت میں کام کرنے والی دونوں ریاستوں کی خفیہ ایجنسیوں کے بیچ ایک دوسرے کی جاسوسی کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ چندر بابو کی پارٹی کی طرف سے حالانکہ فوری طور پر یہ آڈیو ریکارڈنگ فرضی ہونے کا دعوی سامنے آگیا ہے لیکن اپوزیشن کو تنقید کرنے کا موقعہ ضرور مل گیا ہے۔ کرپشن انسداد بیورو کی جانچ کا نتیجہ کب آئے گا؟ اس کے کیا نتیجے نکلیں گے یہ تو دور کی بات ہے جس طرح کی تلخی دونوں ریاستوں میں دیکھنے کو مل رہی ہے وہ عجب ہے اور الزام در الزام سے شری چندرابابو نائیڈو، پردھان منتری سے ملے ہیں۔ ہوسکتا ہے مرکزی سرکار کو دونوں ریاستی حکومتوں کے بیچ صلاح کرانی پڑے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟