چین اپنی چالبازیوں سے باز آنے والا نہیں ہے
چین اپنی شرارتو ں سے باز آنے والا نہیں ہے. چین نے اب حقیقی کنٹرول لائن اودھ پر پوزیشن واضح کرنے کے وزیر اعظم نریندر مودی کی تجویز کو قریب قریب مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سرحد پر امن برقرار رکھنے کے لئے بھارت کے ساتھ ضابطہ کے تحت ایک معاہدے کو ترجیح دے گا. وزیر اعظم مودی کے تجویز پر چین کا پہلی عوامی رد عمل میں چین کے وزارت خارجہ میں ایشیائی امور کے ڈپٹی ڈائریکٹرہوانگ جلین نے کہا کہ ایل او سی پر باہمی حالات کو واضح کرنے کے پیشرو کی کوششوں کے دوران دقتیں آ چکی ہیں. نریندر مودی نے اپنی چین کے سفر کے دوران چینی رہنماؤں سے یہ کہا تھا کہ دونوں ممالک کو سرحدی تنازعے اور دیگر متنازعہ مسئلے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہ مسئلہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں رکاوٹ بنے رہیں گے. قابل ذکر ہے کہ چین کا موقف یہ رہا ہے کہ سرحدی تنازعے صرف 2000 کلومیٹر تک محدود ہے جو کہ زیادہ تر اروناچل پردیش میں پڑتا ہے لیکن ہندوستان اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ یہ تنازعہ سرحد کے مغربی حصے میں تقریبا 4000 کلومیٹر تک پھیلا ہے. خاص طور پراکسائچن جس پر چین نے سال 1962 کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا. اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے دونوں فریقوں کے درمیان خاص نمائندے سطح کی مذاکرات 18 راؤنڈ منعقد ہو چکے ہیں. چینی رد عمل کا سادہ مطلب یہ ہے کہ چین تجارتی تعلقات اور دیگر مسائل کو الگ الگ رکھ کر دیکھنا چاہتا ہے. چین یہ چاہتا ہے کہ اقتصادی رشتوں میں تیزی سے اضافہ ہو اور تجارتی لین دین بڑھتا رہے. بھارت کے سامنے مشکل یہ ہے کہ چین کے ساتھ اس کا کاروبارغیر متوازن ہے اور یہ عدم توازن بڑھتا جا رہا ہے. چین کو بھارت کی برآمد 15 ارب ڈالر کے قریب ہے. لیکن ہندوستان میں اس برآمد 50 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے. یہ برابری کی حیثیت نہیں ہے. بھارت کی کوشش ہے کہ اس فرق کو کم کیا جائے. چین کے ساتھ اس کاروبار عدم توازن کو دور کرنے کے ساتھ ہی بھارت کو اس کی طرح خود کو برآمد کی بنیاد پر معیشت کے طور پر ڈھالناہے. اس میں چین مددگار ہو سکتا ہے لیکن بھارت کو یہ احتیاط برتنی ہوگی کہ وہ اس پر حاوی نہ ہونے پائے. چین کے تئیں کسی بھی طرح کے جوش میں بہنے سے پہلے ہمیں اس خطرناک توسیع ارادوں اور بھارت کے خلاف پاکستان کے ساتھ اس دربھ معاہدوں کا خیال رکھنا ہوگا. ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ صدر شی کی ہندوستان کی موجودگی میں ہی چینی فوج نے بھارتی سرحد کی خلاف ورزی کر تین دن تک ہنگامہ ارائی کی تھی اور پاکستان کو سگا بھائی بتا کر لوٹے چین کے صدر پاکستان کے غیر قانونی قبضے والے ہندوستانی علاقے میں اربوں روپے کی بنیادی ڈھانچہ بندمنصوبوں کے لئے معاہدے کرکے آئے ہیں. چین تو یہ چاہتا ہے کہ اقتصادی رشتوں میں تیزی سے اضافہ ہو اور تجارتی لین دین یوں ہی بڑھتا رہے. دیگر دو طرفہ مسائل پر حالات پر قابو پانا بنی رہے اور صرف اس بات کا خیال رکھا جائے کہ کوئی تنازعہ ایک حد سے زیادہ نہ بڑھ پائے. چاہے اروناچل اور جموں کشمیر کے شہریوں کو نتھی ویزا دینے کا معاملہ ہو یا پاک مقبوضہ کشمیر میں چین کی طرف سے فوجی اہمیت کی تعمیر کرنے کا سوال ،یہ مسئلہ ایسے ہی بنے رہیں اور سرحد پر ہلکی پھلکی طاقت آزمائی بھی بھی چلتی رہے. ہندوستان میں صرف 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کرنے والے جیپنگ نے اپنی پاکستان سفر کے دوران 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور چین پاک اقتصادی کوریڈوور پر کام کرنے کا معاہدہ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے. یہ کورڈور بھارت کے پاک مقبوضہ کشمیر سے ہوکر گجریگا. چین نے ہندوستان کی اعتراض کو درکنار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ پی اوکے پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں سرمایہ کاری سے پیچھے ہٹے گا. اسی منشا کے تحت چین نے پی او سے ہوکر گزرنے والے پاک۔چین اقتصادی کوریڈور کی منصوبے کا دفاع کیا ہے. ہمیں چین سے ہوشیار رہنا ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ چین اپنی چالبازیوں سے باز آنے والا نہیں.
انل نریندر
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں