منیش سسودیا کی رضا کار تنظیم کے غیر ملکی پیسے پر لگام

مرکزی سرکار نے مشتبہ طور پر سرکاری انجمنوں (این جی او) کے خلاف اپنی کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے دہلی کے نائب وزیر اعلی منیش سسودیا کی رضاکار تنظیم ’’کبیر‘‘ سمیت 5470 انجمنوں کے لائسنس منسوخ کردئے ہیں۔ مرکزی وزارت داخلہ کے غیر ملکی عطیہ قواعد ایکٹ (ایف سی آر اے) کے تحت کی گئی کارروائی کے بعد یہ این جی او اب غیر ملکوں سے پیسہ حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ ان این جی او میں سب سے بڑی یونیورسٹیاں، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور اسکاٹ ہارٹ انسٹی ٹیوٹ شامل ہے۔ وزارت داخلہ نے ایف سی آر اے کے تحت ان این جی او کی سرگرمیوں کی جانچ کے بعد ان کے رجسٹریشن منسوخ کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔این جی او نے مبینہ طور سے اپنی سالانہ ریٹرن نہیں داخل کی تھی اور ان کی دیگر سرگرمیوں میں بھی بے قاعدگی پائی گئی تھی۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ سبھی این جی او کو وزارت داخلہ کے شعبہ خارجہ کے ذریعے نوٹس بھیجا گیا تھا اور لائسنس منسوخ کئے جانے سے پہلے سبھی کو جواب دینے کے لئے اچھا خاصہ وقت بھی دیا گیا تھا۔ جن اہم تنظیموں کے لائسنس منسوخ کئے گئے ہیں ان میں پنجاب یونیورسٹی ، چنڈی گڑھ، گجرات نیشنل لاء یونیورسٹی ،گارگی کالج دہلی، لیڈی ارون کالج دہلی، وکرم سارا بھائی فاؤنڈیشن بھی شامل ہیں۔ اپریل میں قریب9 ہزار این جی او پر بیرونی ممالک سے چندہ لینے پر روک لگائی گئی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ اسی برس جنوری میں گرین پیس انڈیا کی رضاکار پریا پلے کو نئی دہلی ہوائی اڈے سے لندن جانے والی فلائٹ میں سوار ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ وہ برطانوی پارلیمنٹ کو خطاب کرنے جارہی تھیں۔ حالانکہ وزارت داخلہ کے اس فیصلے کو دہلی ہائی کورٹ نے بعد میں بدل دیا تھا۔ اس کے بعد مرکزی سرکار نے اپریل میں امریکی انجمن فورڈ فاؤنڈیشن کی رقم سے چل رہی گرین پیس کے ہندوستان کے سبھی کھاتوں کو سیل بند کردیا تھا۔ اسی ماحولیاتی انجمن کو انترم راحت عدالت سے ہی ملی تھی۔ دہلی ہائی کورٹ نے گرین پیس انڈیا کو راحت دیتے ہوئے اسے روزانہ کے کاموں کے لئے ڈومیسٹک ڈونیشن لینے کی اجازت دی ہے۔ اس کے لئے گرین پیس کے دو کھاتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ یہ این جی او گھریلو چندے کے لئے ان دونوں کھاتوں کا استعمال کرسکتا ہے۔ عدالت نے سرکار سے کہا کہ این جی او کے فنڈ کے لئے ان کا گلا نہیں گھوٹا جاسکتا۔ ہائی کورٹ کے جسٹس راجیو شکدھر کی بنچ نے این جی او گرین پیس کو اس بات کی بھی اجازت دی کہ وہ اپنے میعادی ڈپوزٹ کا استعمال کرسکتی ہے۔ عدالت نے سرکار سے کہا ہے کہ وہ ایف سی آر اے قاعدے کے تحت 8 ہفتے میں فیصلہ لیں۔ رقم کے 25 فیصدی حصے کا استعمال سرکار کی منظوری سے کیا جاسکتا ہے۔ کئی این جی او پر الزام لگتا ہے کہ وہ غیر ملکوں سے آئے پیسوں کا بیجا استعمال کرتی ہیں۔سماجی کام نہ کرکے رقابتی سیاست کے کاموں میں استعمال ہوتا ہے اسے روکنے کے لئے ہی سرکار نے یہ سخت قدم اٹھائے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟