سونیا گاندھی کی سرگرمی سے کانگریس کو ملی سنجیونی!

اراضی تحویل بل کے معاملے میں مودی سرکار کے خلاف منگل کے روز ہوئے 14 پارٹیوں کے مورچے نے جہاں مرکزی حکومت کے لئے مسئلہ کھڑا کردیا ہے وہیں اس اتحاد نے سیاسی طور سے سوئی نظر آرہی کانگریس میں اچانک نئی جان ڈال دی ہے۔ کانگریس صدر سونیا گاندھی کی سرگرمی سے بھی پوری پارٹی اچانک رو میں دکھائی پڑنے لگی ہے۔ کانگریس صدر اچانک سرگرم ہوگئیں ہیں۔ منگل کے روز لوک سبھا میں آندھرا پردیش کی تشکیل بل پر کمان سنبھالی۔اس کے بعد وہ تقریباً پوری اپوزیشن کی لیڈر کے طور پر مارچ کرتے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤس سے راشٹرپتی بھون تک گئیں۔ اس پوری قواعد میں پارٹی کے تمام سینئر لیڈر متحد نظر آئے، وہ خود نیتاؤں کو اپنے ساتھ آگے چلنے کیلئے بلا رہی تھیں۔ پارٹی کے ایک سینئر لیڈر نے کہا کئی اشوز نے پارٹی میں جان پھونکنے کا موقعہ دے دیا ہے۔ حال تک غیر سرگرم اور مایوس دکھائی پڑنے والی کانگریس پارٹی میں ایک نیا جوش پیدا ہوا ہے۔ یقینی طور پر اس کا سہرہ کانگریس صدر سونیا گاندھی کو جاتا ہے۔ انہوں نے جتا دیا کہ طویل غیر صحتمندی کے باوجود وہ پست نہیں پڑی ہیں اور ضرورت پڑنے پر آج بھی سڑک پر اتر سکتی ہیں۔ اس سے بے سمت کانگریس میں بھی ایک نئی چیتنا لوٹی ہے۔ سونیا گاندھی کی سرگرمی یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ پارٹی کے اندر سپریم لیڈر ہیں اور لیڈر شپ کو لیکر پارٹی میں کوئی شش و پنج نہیں ہونا چاہئے۔ سب سے اہم یہ بھی ہے کہ سونیا کے سڑک پر اترنے سے کانگریسی ورکر بھی سرگرم ہوگئے ہیں دوسری طرف اراضی تحویل بل پر سرکار کو گھیرنے میں کانگریس کو ملی کامیابی راہل کے راستے میں روڑا بن سکتی ہے۔ ایک ہفتے میں دو بار سڑک پر اتر کر کانگریس کو سنگھرش میں لانے والی کانگریس صدر سونیا گاندھی کی سرگرمی دیکھ پارٹی میں تبدیلی کی مہم کو بھوترا(کند) کرنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔منگلوار کو پوری اپوزیشن کو پارٹی کے پیچھے کھڑا کرچکی سونیا کی رہنمائی کو لیکر پھر سینئر کانگریسی میدان میں ہیں جبکہ بجٹ سیشن سے پہلے چھٹی لیکر گئے پارٹی کے نائب صدر راہل گاندھی کو لیکر ٹیم راہل پش و پیش میں ہے۔ ان سبھی پارٹیوں کیلئے کسان کا اشو بیحد اہم ہے اور بی جے پی سے اپنے اپنے قلعہ بچانے میں اس کے خلاف متحد ہونا ان کی مجبوری بھی ہے۔ بہار میں لالو،نتیش اور کانگریس مل کر بی جے پی کو چنوتی دینے کا پلان بنا رہے ہیں۔بی ایس پی ، اے آئی ڈی ایم کے اور بی جے ڈی جیسی اہم علاقائی پارٹیاں ابھی اس وسیع گول بندی سے دور ہیں۔ تحویل اراضی پر اپوزیشن کے تیوروں کو دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے اسے راجیہ سبھا میں لانے اور پھر سے آر ڈیننس لانے ، پارلیمنٹ کا مشترکہ سیشن سمیت سارے متبادل کھلے رکھے ہیں۔ اس پر جاری آرڈیننس کی میعاد 5 اپریل کو ختم ہورہی ہے۔ راجیہ سبھا میں اقلیتی اور تحویل اراضی بل کے خلاف زیادہ تر اپوزیشن کا اتحاد سرکار کے لئے بڑی مصیبت بن گیا ہے اور اسے اب متبادل پر غور کرنا ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟