ڈی ۔ کے ۔ روی کی پر اسرار موت پر اٹھے کئی سوال

ریت مافیہ کے خلاف مہم چلانے والے ایماندار آئی اے ایس افسر ڈی ۔کے۔ روی کی موت کی گونج کرناٹک اسمبلی سے سڑک تک سنائی دے رہی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں نے منگل کے روز اسمبلی میں یہ معاملہ اٹھاتے ہوئے سرکار پر ایک ایماندار افسر کو بچا پانے میں ناکام رہنے کا الزام لگایا۔ پولیس بھلے ہی 2009 بیج کے افسر ڈی ۔ کے ۔ روی کی موت کو پہلی نظر میں خودکشی بتا رہی ہے لیکن سوال اٹھنا لازمی ہے کہ جس افسر کے پیر اونچی پہنچ والے بدعنوانوں کے سامنے نہیں کانپے، وہ دنیا چھوڑنے کیلئے اتنا بزدلانہ راستہ کیوں چنیں گے؟ڈی۔ کے۔ روی کے قریبی دوستوں نے کہا ہے کہ نیتاؤں کے قریبی نامی گرامی بلڈروں اور زمین مافیاؤں پر شکنجہ کسنے والے روی کو انڈر ورلڈ سے بھی جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ ایک کسان پریوار سے آنے والے روی نے سخت محنت کے بلبوتے پر آئی اے ایس کا امتحان پاس کیا تھا۔ سال 2009 کے بیج کے کرناٹک کیڈر کے افسر روی کو کولار ضلع میں ریت اورزمین مافیاؤں کے خلاف مہم چلانے سے مقبولیت ملی تھی۔ اکتوبر میں کولار سے روی کے تبادلے کی مقامی عوام نے بھاری مخالفت کی تھی۔ بنگلورو میں انہوں نے کئی بڑے بلڈروں ریئل اسٹیٹ گروپوں اور ریٹیل کاروباریوں پر ٹیکس چوری کے معاملے میں شکنجہ کسا، ساتھ ہی ہزاروں کروڑ روپے کی قبضائی زمین بھی آزاد کرائی۔ حال ہی میں وہ بنگلورو میں ایڈیشنل کمشنر (سیلس ٹیکس) کے بطور عہدہ پر فائض تھے۔کچھ سماجی ورکروں کا دعوی ہے کہ روی ٹیکس چوری کے بڑے معاملوں کا انکشاف کرنے کے لئے کچھ بڑے بلڈروں پر چھاپہ ماری کا پلان بنا رہے تھے۔ خبروں کے مطابق وہ ایسی کارروائیوں کے ذریعے 400 کروڑ روپے سے زیادہ کی وصولی کر چکے تھے۔ظاہر ہے ایسے میں روی بہت سے طاقتور لوگوں کی آنکھوں کاکانٹا رہے ہوں گے۔ روی کے والد کریپا، ماں گورمّا، بھائی رمیش نے بدھ کے روز اسمبلی کے سامنے دھرنا دیا اور دھمکی دی کہ اگر ( سی بی آئی جانچ) کی ان کی مانگ نہیں مانی گئی تو وہ خودکشی کرلیں گے۔ پہلے سے پریشان انتظامیہ پر اس دھمکی سے دباؤ اور بڑھ گیا ہے۔ ادھر اسمبلی چناؤ میں اپوزیشن نے بھی سی بی آئی جانچ کی مانگ کرتے ہوئے دوسرے دن بھی حکومت پر دباؤ بنائے رکھا۔حالانکہ حکومت نے اسے ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ واقعے کی سی آئی ڈی جانچ ہوگی۔ وزیر اعلی سدا رمّیا نے اسمبلی کے باہر کہا یہ ایسا معاملہ نہیں ہے جسے سی بی آئی کو سونپا جائے۔ ڈی ۔کے۔ روی35 سال کے تھے ضروری ہے کہ ان کی موت کی وجہ کا صحیح خلاصہ ہو، اگر جانچ میں یہ ثابت ہو بھی جائے کہ انہوں نے واقعی خودکشی کی ہے، تب بھی یہ سچائی سامنے آنی چاہئے کہ انہیں کن حالات میں یہ قدم اٹھانا پڑا؟ بہتر ہوگا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کیلئے ریاستی حکومت معاملے کو جلد سے جلد سی بی آئی کو سونپ دے تاکہ روی اگر کسی سازش کا شکار ہوئے ہیں تو اسے بے نقاب کیا جاسکے۔ ڈی۔کے۔ روی جیسے نڈر اور ایماندار افسر کا یوں اچانک چلے جانے نہ صرف ان کے پریوار اور سرکار ، بلکہ دیش کے لئے نقصان ہے۔ ہم ایسے بہادر افسر کو اپنی شردھانجلی دیتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟