اسٹنگ ماسٹر خود اسٹنگ میں پھنسے: پارٹی بے حال

دہلی میں عام آدمی پارٹی سرکار کا پہلا مہینہ پورا ہوچکا ہے۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ان 30 دنوں میں عام آدمی پارٹی کی سرکار نے فضیحت کے سوا اور کچھ حاصل نہیں کیا۔ دیش کی تاریخ میں شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ کوئی پارٹی اتنے کم وقت میں اقتدار کی بلندیوں پر پہنچی ہو اور پھر اچانک اس کی پوری ساکھ مٹی میں مل گئی ہو اور یہ ساکھ کسی مخالف دل نے نہیں مٹی میں ملائی بلکہ خود پارٹی کے لیڈروں نے ایک دوسرے پر الزامات لگاکر حاصل کی ہے۔ نئی طرح کی سیاست کرنے کے بڑے بڑے دعوؤں کے ساتھ اقتدار میں آئی عام آدمی پارٹی جس طرح اندرونی جھگڑوں سے گھری ہے اس سے وہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے سمرتھکوں اور شبھ چنتکوں کو بھی شرمسار کررہی ہے۔ عام آدمی پارٹی میں پھوٹ سے غصائے والینٹروں نے بدھوار شام ایسٹ پٹیل نگر واقع پارٹی دفتر کے باہر اپنے سینئر لیڈروں کے خلاف نعرے بازی کی، کینڈل مارچ نکالا۔ والینٹروں نے کہا کہ آپ میں تنازعے سے انہیں صدمہ پہنچا ہے۔ا س سے عوام کے درمیان غلط پیغام جارہا ہے۔ اس پر فوراً روک لگے۔ اگر نہیں لگی تو پارٹی کو سخت نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔ جس امید سے عوام نے ووٹ دے کر آپ کو جتایا تھا وہ جھوٹ ہوسکتا ہے۔ جس طرح سے پارٹی نیتاؤں میں کھینچ تان شروع ہوئی ہے وہ شرمناک ہے۔ پولیس ذرائع کی مانیں تو مظاہرین میں شامل والینٹئر یوگیندر یادو کے حامی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی میں لوک تنتر ہونا چاہئے اور سبھی کو اپنی بات رکھنے کا حق ہے۔ جس طرح یوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن کے خلاف کارروائی کی گئی ہے وہ غلط ہے۔آج دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ آپ میں بھاری جوتم پیزار مچی ہے۔ پارٹی دو گٹوں میں بٹی ہے اور دونوں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی بلاگ لکھ رہا ہے ،کوئی چٹھی تو کوئی اسٹنگ آپریشن کی سی ڈی پیش کررہا ہے۔ اس ڈرامے میں کبھی اموشن آجاتا ہے تو کبھی بدلے کی آگ بھڑکتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کا کل نتیجہ یہ ہے کہ پارٹی کی لیڈر شپ میں شامل سارے لوگوں کی قلعی کھل گئی ہے۔ لوگ حیران پریشان ہیں کہ جن سے سیاست کی صفائی کی امید تھی وہ اپنے اندر اتنی گندگی چھپائے ہوئے تھے۔ اب تو یہ بھی طے سا لگ رہا ہے کہ آپ پارٹی کا تنازعہ منصوبہ بند طریقے سے بڑھایا جارہا ہے۔اس پارٹی کی اندرونی رسہ کشی اب اپنے شباب پر جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ کب ختم ہوگی اور کیسے۔ یہ بھی کہنا آج مشکل ہے کہ رسہ کشی ختم ہونے کے بعد وہ اپنا وقار بچانے میں کامیاب ہوگی یا نہیں؟ حیرت انگیز یہ ہے کہ جب پارٹی کے سینئر لیڈر کھلے عام ایک دوسرے پر حملہ کرنے میں لگے ہیں تب پارٹی چیف اروند کیجریوال علاج کے بہانے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ان کی اس پراسرار خاموشی یہی بتا رہی ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ انہیں راس آرہا ہے اور شاید اس لئے کہ ان کے مخالف قرار دئے گئے پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو کے خلاف ماحول بن رہا ہے۔
گزشتہ کچھ دنوں سے کیجریوال کے حامیوں نے ان دونوں لیڈروں پر جیسے زوردار حملے کئے ہیں اس کے بعداس کے آثار بڑھ گئے ہیں کہ انہیں پارٹی سے باہر کا راستہ دکھایا جاسکتا ہے۔ کیجریوال کی خود کی شبیہ خراب ہورہی ہے۔راجیشگرگ نے جو آڈیو ٹیپ جاری کیا ہے اس ٹیپ میں کیجریوال نہ صرف کانگریس سے مل کر سرکار بنانے کو بے قرار دکھتے ہیں بلکہ وہ کانگریسی ممبران اسمبلی کو توڑنے کی بھی صلاح دے رہے ہیں۔ آواز کیجریوال کی ہی ہے اور وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ان کی آواز کو توڑ مروڑ کر جھوٹا ٹیپ جاری کیا گیا ہے اور ویسے بھی ان کی قریبی اس بات سے انکار بھی نہیں کررہے کہ کیجریوال تب کے سیاسی حالات میں سرکار کے قیام کے امکانات کو ٹٹول رہے تھے۔اگر ایسا ہی ہے تو پھر الگ طرح کی سیاست کرنے اور اپنے لئے اخلاق کے اچھے اصول طے کرنے کا کیا مطلب؟ موجودہ حالات یہی بیان کرتے ہیں کہ کس طرح اقدار مریاداؤں اور آدرشوں کی باتیں کرنے والے دل موقعہ ملتے ہی موقعہ پرست بن جاتے ہیں۔ ’آپ‘ انا ہزارے کی لیڈر شپ میں چلے بدعنوانی مخالف آندولن کی دین ہے۔ اس آندولن سے جڑے ایک طبقے نے یہ لائن پکڑی کہ نظام کو درست کرنے کے لئے اس کے اندر گھسنا ہوگا۔ بری سیاست کو ختم کرنے کے لئے اچھی سیاست کھڑی کرنی ہوگی اور اسی کا جنتا نے استقبال کیا اور کیجریوال کی پارٹی کو دل کھول کر ووٹ دیا۔ اب وہی جنتا یہ ماننے لگی ہے کہ ’آپ‘ پارٹی میں بھی وہ تمام کمزوریاں ہیں جن سے لڑنے کا دعوی کیجریوال کرتے آئے ہیں۔ آج ’آپ‘ کارکن سوال کررہے ہیں کہ اگر آپ نے بھی وہی ہتھکنڈے اپنانے ہیں تو آپ میں اور بھاجپا۔ کانگریس میں فرق کیا ہے؟اور اگر اس پارٹی کو بھی وہی کرنا ہے تو پھر ان کی ضرورت ہی کیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ اروند کیجریوال کے لوٹنے پر پارٹی کی اس اندرونی جنگ پر روک لگے گی اور کیجریوال اینڈ کمپنی اپنے وہ سارے وعدے پورے کریں گے جس کے لئے دہلی کی جنتا نے انہیں ووٹ دیا ہے۔ پہلے 30 دن کی آپ کی سرکارمیں بیشک بجلی، پانی میں راحت ملی ہو لیکن کل ملاکر پارٹی کا شرمناک پردرشن رہا ہے۔ آپ کی اس حالت سے انا کی اس بات کو بھی تقویت ملتی ہے کہ آندولنوں اور سیاست میں بہت فرق ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ آندولن کاری کامیاب سیاستداں بھی ہو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟