بے موسمی بارش نے توڑی کسانوں کی کمر

مارچ مہینے میں چوتھی بار بارش وہ بھی زبردست، نے کسانوں کی کمر توڑ دی ہے۔ اس مہینے میں بارش نے نہ صرف 100 سال کا ریکارڈ توڑا ہے بلکہ کسانوں کی رہی سہی امیدیں بھی دھو ڈالی ہیں۔ بھارت گاؤں کا دیش ہے یہ محاورہ ابھی پرانا نہیں ہوا ہے۔ اندازہ ہے کہ ملک کی تقریباً68 فیصدی آبادی گاؤں میں ہی رہتی ہے جو کھیتی میں لگی ہوئی ہے اور اسی پر منحصر ہے۔پشچمی گڑ بڑیوں کی وجہ سے مارچ مہینے میں چوتھی بار بے موسم بارش کے ساتھ تیز ہواؤں کے جھونکوں نے بارش کے باوجود کچھ علاقوں میں سنبھلی گیہوں کی فصل کو تباہ کردیا ہے۔ گیہوں کے ساتھ سرسوں، آلو، مٹر اور سبزیوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ حالات کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ بیتے11 مارچ تک دیش بھر میں اوسط سے 237 فیصدی زیادہ بارش ہوئی ہے۔ قریب 1015 فیصدی کی مار ہریانہ ،چنڈی گڑھ اور دہلی کے کسانوں کو جھیلنی پڑی ہے۔ جبکہ پوربی اور پشچمی اترپردیش میں اوسط سے 640.64 فیصد زیادہ بارش ہوچکی ہے۔زراعت کے ماہرین کا ماننا ہے کہ بے موسم بارش سے جہاں کسان بے حال ہوں گے وہیں اس کا خمیازہ صارفین کی جیبوں کو بھی اٹھانا پڑے گا۔ آلو اور پیاز کی فصل کو نقصان ہونے کے بھاری اندیشے سے اس کی قیمتوں میں تیزی کا اندازہ ہے۔گرمی کے موسم کے اہم پھل آم کے بور کے جھڑنے اورٹوٹ کر گرنے سے زبردست نقصان ہوا ہے۔ ربیع فصلوں کے شاندار پردرشن کی امید لگائی جارہی تھی لیکن مارچ کی قدرتی آفت نے کسانوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ سنسد میں گزشتہ ہفتے ہی وزیر زراعت رادھا موہن سنگھ نے 50 لاکھ ہیکٹر ربیع فصلوں کا نقصان ہونا قبول کیا تھا لیکن بارش اور تیز ہواؤں کا جھونکا رواں ہفتے میں بھی جاری ہے۔ کھیتوں میں کھڑی فصلیں تو بیکار ہوئی ہی ہیں کٹ کر رکھی زرعی فصلوں کی بھاری پیمانے پر بربادی بھی ہوئی ہے۔ کسانوں کے لئے یہ آفت اتنی بڑی ہے کہ الگ الگ علاقوں میں ان داتاؤں کے ذریعے خود کشی کرنے کی خبریں لگاتار آ رہی ہیں۔ ایتوار کو ہوئی بارش سے فصل خراب ہوتے دیکھ آگرہ کے ملپورہ کے کسان پریم سنگھ اورچندولی کے کسان راجندر سنگھ فاکرے کی صدمے سے موت ہوگئی۔ ان کے علاوہ مین پوری کے بٹناہل میں کسان روہن سنگھ اور مدھیہ پردیش کے کھڑوا میں بھی ایک کسان کی دل کا دورہ پڑنے سے موت کی اطلاع ہے۔ بارش سے راجستھان میں12 لوگوں کی موت ہوئی ہے جبکہ یوپی میں 5 اور اتراکھنڈ میں2 لوگوں کی جان چلی گئی۔ زبانی مرحم صدمے سے متاثر کسانوں کیلئے کافی نہیں ہوگا۔ ضروری ہے کہ جنگی سطح پر ایسے انتظام کئے جائیں تاکہ فصل برباد ہونے سے ٹوٹ چکی کسانوں کی کمر سیدھی ہوسکے۔ ایک طرف ان کی ضائع ہوچکی لاگت کی بھرپائی ضروری ہے دوسری طرف یہ بھی لازمی ہے کہ ان کی دیکھ بھال کا مکمل انتظام ہو۔ فوری راحت دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کا انتظام کیا جانا چاہئے کہ ایسی آفات کے وقت کسانوں کو بیمہ کے ذریعے موثر تحفظ فراہم کرایا جائے۔صارفین کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟