آسام میں نہ رکتا دہشت گردانہ تشدد!

ہم نے دیکھا ہے کہ عام طور پر جب ہم دہشت گردی کی بات کرتے ہیں تو ہم ان جہادی گروپوں لشکر طیبہ،جیش محمد اور القاعدہ کے واقعات کا ذکر کرتے ہیں ان کے ذریعے آتنکی حملوں کی بات کرتے ہیں لیکن دیش کے اندر بھی ایسی کئی تنظیمیں ہیں جو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں لیکن ان کا زیادہ ذکر نہیں ہوتا۔ ایسی ہی ایک تنظیم ہے الفا۔ آسام میں اشتعال انگیزی اور حملوں کا سلسلہ تھوڑے بہت اتار چڑھاؤ کے ساتھ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ 2014 ء کے جاتے جاتے دہشت گردوں نے آسام کے سونی پور اور کوکرا جھار اضلاع میں بھیانک قتل عام کرکے اپنی خونی حرکتوں کو درج کرادیا ہے۔ بوڈو دہشت گردوں نے دور دراز کے آدی واسی دیہات کو نشانہ بنایا ہے۔ مارے گئے لوگوں میں کافی بچے اور عورتیں ہیں۔ غصے میں بھرے آدی واسیوں نے پانچ بوڈو خاندانوں پر بدلہ لینے کیلئے حملہ کردیا۔ اس قتل عام میں 50 سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں اور20 گھر جلا ڈالے۔ اس قتل عام کے پیچھے بوڈو دہشت گردوں کی تنظیم نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ ہے جسے ہم مخفف میں این ڈی ایف کے نام سے جانتے ہیں، کا ہاتھ ہے۔ یہ قتل عام بتاتا ہے کہ بھارت کے دور دراز سرحدی علاقوں میں مقیم لوگ چٹ پٹ تشدد اور شورش کو جھیل رہے ہیں۔ الفا کے کئی عہدیداران کی گرفتاری اور پھر اس کے چیف کے امن عمل میں شامل ہونے کے بعد سے یہ مانا جارہا ہے کہ آسام کو دہشت گردانہ تشدد سے کافی حد تک نجات مل گئی ہے مگر اس رائے پر ایک بار پھر سے سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ دراصل چاہے الفا ہو یا این ڈی ایف بی ہو ان کے جیسے گروپ جو امن معاہدوں میں شامل نہیں ہوئے اب بھی ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں جب تب موقعہ ملتا ہے وہ قتل اور دھماکوں کو انجام دیتے رہتے ہیں۔ کبھی ان کے نشانے پر سکیورٹی جوان ہوتے ہیں تو کبھی عام لوگ۔ آسام کے وزیر اعلی ترون گگوئی نے ان حملوں کو بربریت آمیز قرار دیا ہے۔ این ڈی ایف بی بوڈو علیحدگی پسندوں کی سب سے بڑی مشتعل تنظیم ہے جس سے سرکار کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتی۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ آزاد بوڈو لینڈ سے کم بات پر سمجھوتے کو تیار نہیں ہیں۔ این ڈی ایف بی میں دو گروپ ہیں ان میں سے ایک سرکار سے بات چیت نہیں کرنا چاہتا تو دوسرا گروپ بات چیت کے حق میں ہے۔ جس گروپ نے یہ قتل عام انجام دیا ہے وہ بنیادی طور سے این ڈی ایف بھی کی مسلح یونٹ بوڈو لینڈ آرمی کے سابق چیئرمین سنگپجیت کا گروپ ہے۔ نارتھ ایسٹ کی دہشت گرد تنظیم اپنی موجودگی درج کرانے یا اپنا دبدبہ بڑھانے کے لئے اس طرح کے قتل عام کو انجام دیتی رہتی ہیں۔ ان کے اس کاروبار کا خمیازہ عام شہری بھگتے ہیں۔ نارتھ ایسٹ کا اگر ڈولپمنٹ نہیں ہوا تو اس کے پیچھے ایک وجہ ان تنظیموں کی تشدد آمیز سرگرمیاں ہیں۔ مقامی سیاستداں اپنی سیاست چلانے کیلئے ان گروپوں کا سہارا لینے سے نہیں ہچکچاتے۔ نارتھ ایسٹ کا مسئلہ اتنا سنگین بھی نہیں ہے جتنا بنا دیا گیا ہے۔ اگر ایمانداری سے ان مسئلوں کو سلجھا لیا جائے اور ترقی پر توجہ دی جائے تو وہاں امن قائم ہوسکتا ہے لیکن پہلے قومی دھارا کے بھارت کو نارتھ ایسٹ کے لوگوں سے ذہنی طور پر دوری بنا کر ان کی بات سننی ہوگی۔ تبھی وزیر اعظم نریندر مودی نے نارتھ ایسٹ میں امن قائم کرنے کی سمت میں کچھ قدم اٹھائے ہیں۔ دیکھیں وہ مستقبل قریب میں کتنے کارگر ثابت ہوتے ہیں اور آسام کی عوام کو امن کا دور مل سکتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟