جھارکھنڈ اور جموں و کشمیر کے چناؤ نتائج کیا اشارہ دیتے ہیں؟

جموں وکشمیر اور جھارکھنڈ اسمبلی چناؤ میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے وزیراعظم نریندر مودی کی مقبولیت کے رتھ پر سوار ہوکر اب تک کی سب سے شاندار پرفارمینس کا مظاہرہ کیا ہے۔ جموں و کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار بی جے پی نہ صرف دوسری سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے بلکہ ووٹ شرح کے لحاظ سے بھی سب سے بڑی پارٹی بنی ہے۔ اس چناؤ میں اسے 23 فیصدی ووٹ ملے جبکہ پچھلی بار پارٹی نے 11 سیٹیں جیتی تھیں جو اس بار دوگنا سے بھی زیادہ ہیں۔ پارٹی کے لئے مشن44 بھلے ہی نمبروں میں پورا نہیں ہوپایا لیکن جموں و کشمیر میں پارٹی کا ابھرنا یقینی طور سے یہاں کی سیاست میں ایک نیاموڑ مانا جارہا ہے۔ حالانکہ کشمیر وادی میں بی جے پی کھاتہ نہیں کھول پائی لیکن اپنی موجودگی درج کرانے میں کامیابی ضرور ملی۔ پارٹی دو فیصدی ووٹ لیکر باقی بھارت اور پاکستان حمایتی علیحدگی پسندوں کو ایک پیغام دینے میں ضرور کامیاب رہی۔ علیحدگی پسندوں کے بائیکاٹ کی اپیل تبدیلی مذہب جیسے اشو نے پارٹی کی ووٹنگ پر اثر ڈالا ہے۔ دوسری طرف جھارکھنڈ کی بات کریں تو اس ریاست میں بی جے پی کی اگلی سرکار بننے جارہی ہے۔ ریاست کے قیام کے ڈیڑھ دہائی بعد پہلی بار ایسا موقعہ آیا ہے کہ چناؤ سے پہلے اتحاد کی ریاست میں اکثریتی حکومت ہوگی۔عدم استحکام کے سبب جھارکھنڈ نے سیاسی زوال کے کئی دور دیکھے ہیں۔ بی جے پی باقاعدہ طور پر بدھوار کو جھارکھنڈ میں نئے وزیر اعلی کے نام کا اعلان کرے گی لیکن یہ لگتا ہے کہ اس بار پہلی بار غیر آدی واسی وزیر اعلی بنے۔ آدی واسی لیڈروں اور ریاست کے سابق وزرائے اعلی کی بات کریں تو ووٹروں نے ان سرکردہ لیڈروں کو آئینہ ضرور دکھا دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ہی ریاستوں کے وزرائے اعلی اپنی ممبری بچانے میں بھی بمشکل کامیاب رہے۔ جب وہ دو دو سیٹوں پر لڑے تھے۔
نیشنل کانفرنس کے چیئرمین اور چھ سال سے جموں و کشمیر کے وزیر اعلی رہے عمر عبداللہ سرینگر ضلع کی سونوار سیٹ سے پی ڈی پی کے امیدوار اشفاق میر سے ہار گئے جبکہ بڈگام ضلع کی ویروا سیٹ پرایک ہزار ووٹوں سے جیت پائے۔ وہیں جھارکھنڈ کے وزیر اعلی ہیمت سورین بھی دمکا اور برہیٹ سیٹ سے لڑے لیکن کامیابی انہیں برہیٹ ہی میں ملی۔ پچھلی مرتبہ وہ دمکا سے کامیاب ہوئے تھے۔ ادھر ریاست کے پہلے وزیر اعلی اور جھارکھنڈ وکاس مورچہ کے پردھان بابو لال مرانڈی گریڈی اور دھنوار دونوں سیٹوں پر ہارگئے۔ گریڈی میں بھاجپا کے نرمے شابکش نے انہیں ہرایا۔ اس کے علاوہ تین بار وزیر اعلی رہ چکے ارجن منڈا کی ہار نے بھاجپا کو زبردست جھٹکا دیا ہے۔ منڈا کو ریاست کے وزیر اعلی کے دعویداروں میں سب سے اوپر مانا جاتا تھا۔ جھارکھنڈ سے ہی ایک اور سابق وزیر اعلی مدھو کوڑا کو بھی عوام نے مسترد کردیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی بیوی گیتا کوڑا مغربی سنگھ بھوم ضلع کی جگناتھ پور سیٹ سے جیت گئی ہیں۔ ویسے ان چناؤ سے کئی اشارے ضرور ملتے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ نریندر مودی کا جادو لوک سبھا چناؤ جیسا اب نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ کشمیر وادی میں بی جے پی کو لوک سبھا چناؤ سے بھی کم ووٹ ملے ہیں ، جھارکھنڈ میں بی جے پی کا دائرہ سمٹا ہے۔ لوک سبھا چناؤ کے دوران بی جے پی جھارکھنڈ میں اکیلے54 اور جموں و کشمیر میں26 سیٹوں پر آگے تھی۔ دوسری بات جو ابھر کر سامنے آئی ہے وہ ہے بی جے پی کو اتحادی کی سیاست پر پھر سے غور کرنا پڑسکتا ہے۔ 
مرکز میں اپوزیشن پارٹیاں اس کے خلاف ہاتھ ملا رہی ہیں۔ جھارکھنڈ میں بی جے پی کے خلاف دو بڑی پارٹیاں ہاتھ ملا لیتیں تو تصویر بدل سکتی تھی۔ ووٹوں کی تقسیم سے بی جے پی کو فائدہ ملا۔ تیسرا مرکز کی مودی سرکار کیلئے اسمبلی چناؤ میں جیت راجیہ سبھا میں مضبوطی دے گی۔ اس ایوان میں پارٹی کے کمزور ہونے کی وجہ سے اقتصادی اصلاحات بل رکے پڑے ہیں۔ چوتھی بات اگلے سال دہلی اور بہار میں چناؤ ہونے ہیں ان نتیجوں کا اثر بھی پڑ سکتا ہے۔ کانگریس کیلئے ہار کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ دونوں ریاستوں میں کانگریس چوتھے نمبر پر رہی۔ کبھی یہ دیش میں سب سے زیادہ ریاستوں میں سب سے بڑی پارٹی بنی رہتی تھی۔ کانگریس کے لئے یہ چناؤ بھی ایک تباہ کن خواب کی طرح رہا۔ اب پارٹی کے اندر لیڈر شپ کو لیکر پھر سے سوال اٹھے گا۔ چناؤ نتیجوں نے دونوں ریاستوں کیلئے امکانات کے دروازے کھول دئے ہیں۔
لوک سبھا چناؤ کے دور سے ہی پارٹی عدم استحکام کے دور سے گزر رہی ہے۔ جھارکھنڈ کو پہلی بار پائیدار حکومت کا احساس ہوگا۔حکمراں مخالف لہر میں جھارکھنڈ مکتی مورچہ کو بیشک اقتدار سے باہر کردیا ہو لیکن پارٹی کا یہاں صفایا نہیں ہوا۔ آدی واسیوں کا چہرہ مانے جانے والی یہ پارٹی ایک مضبوط اپوزیشن کی شکل میں نئی سرکار کے لئے زور دار طریقے سے نکیل کسنے کا رول نبھا سکتی ہے۔ کانگریس کی گراوٹ پر شاید کسی کو حیرت ہوئی ہو لیکن لالو اور نتیش کا اتحاد جس طرح یہاں مار کھاگیا وہ بہار کے ان دو سرکردہ لیڈروں کیلئے اچھا اشارہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس ریاست میں اگلے سال چناؤ ہونے والے ہیں۔ دہلی میں بھاری بھرکم ریلی میں لالو اینڈ کمپنی نے جو ہوا بنانے کی کوشش کی تھی اس پر ان چناؤ نتائج نے پانی پھیردیا ہے۔ سب سے بڑا معجزہ تو جموں و کشمیر میں دیکھنے کو ملا۔ جس بھاجپا کو آج تک اپنی موجودگی درج کرانے کیلئے جدوجہد کرنی پڑتی تھی وہ اچانک یہاں کے اقتدار کیلئے ایک مضبوط طاقت بن کر سامنے آئی ہے۔ امت شاہ نے یہاں 44+ کی ایسی سیاسی چال چلی کہ چناؤ بائیکاٹ کی پاکستانی سازش دھری کی دھری رہ گئی اور ووٹروں نے بے خوف اپنے جمہوری حق کا استعمال کیا اور گولی کی جگہ ووٹ بھاری پڑا۔ یہ ہماری جمہوریت کے لئے اچھا اشارہ بھی ہے اور ہمارے دشمنوں کے منہ پر کرارا طمانچہ بھی ہے۔ آخر میں ہمیں چناؤ کمیشن کو بدھائی دینی ہوگی کہ تشدد کاشکار ان دونوں ریاستوں میں وہ کامیابی سے چناؤ کروانے میں کامیاب رہے۔ بھارت کی جمہوریت مضبوط ہوئی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟