سپریم کورٹ نے منسوخ کئے کوئلہ الاٹمنٹ کے سارے بلاک

ہندوستان کے سابق کمپٹرولر و آڈیٹر جنرل(سی اے جی) ونود رائے نے جب کولہ گھوٹالے کو اجاکر کرتے ہوئے دیش کے خزانے کو ایک لاکھ 86ہزار کی چپت لگنے کی بات کہی تھی کو منموہن سنگھ سرکار اور کانگریس نہ جانے کن کن دلائل اور ہڑپوں کے ساتھ ان پر برسی تھی اب سپریم کورٹ نے ایک طرح سے ان انکشافات پر اپنی مہر لگا دی ہے اس کے آثار پہلے ہی نظر آرہے تھے کہ سپریم کورٹ کوئلہ الاٹمنٹ کو صحیح نہیں پائے گی کیونکہ ان کا الاٹمنٹ منمانی کی کہانی بیان کررہا تھا اس پر شاید ہی کسی کو تعجب ہو کہ سپریم کورٹ نے 1993 کے بعد سبھی کوئلہ بلاک کے الاٹمنٹ کو غیر قانونی ٹھہرا دیا ہے اقتصادی اصلاحات کی بنیاد کیا کرپشن کے پاؤں پر رکھی گئی تھی؟ دیش کی نایاب ذریعہ کوئلہ کے ساتھ ڈیرھ ڈھائی سے جو سرکاری کھیل چل رہا تھا اس کو بے نقاب دیش کی سب سے بڑی عدالت نے کردیا ہے۔ عدالت نے کوئلہ الاٹمنٹ کے عمل پر ہی سوال اٹھاتے ہوئے اسے غیرقانونی بتا دیا جس میں دیش کا یہ نایاب معدنیات کو چوری چھپے منمانے طریقے سے بانٹ دیا جاتا تھا۔ دیش میں دستیاب توانائی ذرائع میں سب سے اہم کوئلہ کو اقتصادی ترقی کاانجن ماناجاتا ہے جس میں بجلی بنانے اور صنعتی پروڈکٹس کے بڑھاوے میں لگایاجاتا ہے اس لئے اصلاحات کے نام پر انسپکٹر راج کی جگہ ا سکرین کمیٹی کے ذریعہ حوالے کردیا گیا جو منمانی کرنے کو آزاد تھی لیکن ترقی کے نام پر جس طرح دیش کے اس کالے ہیرے کی بندر بانٹ کی گئی اس سے خفا سپریم کورٹ نے پورے سودے کو ہی غیرقانونی قرار دے دیا ہے بجلی کی قلت کے چلتے دیش اور کوئلے کے لئے ترستے بجلی گھروں کے لئے بے شک یہ فیصلہ ایک ہتھوڑے کی چوٹ جیسا ہوگا لیکن ایک اثردار سبق بھی ثابت ہوگا کوئلہ ہوتے ہوئے بھی آج ہمارے بجلی گھر اس کے بحران سے شکار ہے تو اس کی ذمہ داری یہی پالیسی ہے کہ جس میں ہمارے سیاست داں افسر شاہ سیٹ اور دلال وہ کوئلہ مافیہ مل کر کھیلتے ہیں اور بھاری منافع جیببوں میں بھرتے ہیں لیکن خمیازہ دیش کے عام آدمی بھگتنا پڑتا ہے جو شہروں میں بھی رہ کر 12 گھنٹے بجلی کے لئے ترستے ہیں سپریم کورٹ کے اس اہم فیصلے کے بعد 1993 سے لے کر2008کے درمیان ہوئے سبھی کوئلہ الاٹمنٹ سودوں کے مستقبل پر قیاس آرائیوں کا دور شروع ہوگیا ہے۔ کیونکہ عدالت نے ان کا الاٹمنٹ منسوخ ہی نہیں کیا ہے بلکہ اس کے بارے میں اگلی سماعت میں اپنا موقف طے کریں گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت انہیں منسوخ کرتی ہے یا نہیں؟ یہ ممکن ہے کہ وہ ان کمپنیوں کے معاملے میں فراخ دلی سے غور کریں جنہوں نے کوئلے کو کھدائی شروع کردی ہے یا ایسا کرنے کے لئے کافی تیاری کرلی ہے جو بھی ہو سپریم کورٹ کا فیصلہ سی اے جی کے تغذیہ کے ساتھ ساتھ سی بی آئی کے نتیجہ کی بھی تصدیق کرتا ہے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کے پورے معاملے میں رول پر بھی سوال کھڑے ہونگے کیونکہ منموہن سنگھ کافی وقت تک کوئلہ وزیر رہے تھے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!