نہ تو وزراء اعلی کی ہٹنگ ٹھیک ہے اور نہ ہی پی ایم کا بائیکاٹ!

وزیر اعظم نریندر مودی کے پروگراموں میں وزرا ء اعلی کی ہٹنگ کا معاملہ اور ان کے پروگراموں کا کانگریسی وزراء اعلی کے ذریعے بائیکاٹ کرنے ا فیصلہ ایک غلط شروعات تو ہے ہی بلکہ ایک غلط سیاسی رویت کو جنم دینا ہے۔ ہریانہ کے وزیر اعلی بھوپندر سنگھ ہڈا کے بعد جھارکھنڈ کے وزیر اعلی ہیمنت سورین کی ہٹنگ ہوئی ہے اور یہ تب ہوئی جب وزیر اعظم خود اسٹیج پر موجود تھے۔ اس معاملے میں کانگریس نے طے کرلیا ہے کہ مستقبل میں وہ اپنی پارٹی کی سرکاروں کے وزراء اعلی کو وزیر اعظم کے پروگراموں سے دور رکھے گی۔ یعنی وہ وزیر اعظم کے پروگراموں کا بائیکاٹ کریں گے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا ہے کہ جھارکھنڈ میں مرکزی وزیر محنت و فولاد اور معدنیات نریندر سنگھ تومر کو رانچی میں جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے ورکروں نے کالے جھنڈے دکھا کر ان کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ دراصل دونوں طرف سے غلطی ہوئی ہے۔ پہلی غلطی ان سیاسی ورکروں کی طرف سے جو یقیناًبھارتیہ جنتا پارٹی یا این ڈی اے سے وابستہ ہوں گے ،کیونکہ کم از کم پروٹوکول کی تعمیل نہیں کررہے ہیں۔ دیش کے وزیر اعظم کی موجودگی میں کسی بھی سینئر شخص کو بولنے کے دوران اس کو سننے کے بجائے ہٹنگ کرناغلط ہے مگر اس کے ساتھ یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ وزیر اعظم کو بھی انہیں روکنے کی کوشش کرنا چاہئے تھی اور اس کی مخالفت کرتے۔ بیشک انہوں نے ایک دو بار روکنے کا اشارہ بھی کیا لیکن ہڑدنگ مچانے والوں کو سختی سے روکنا چاہئے تھے۔ اس کے ساتھ وزراء اعلی یا سیاستدانوں کی بھی کم ذمہ داری نہیں ہے کہ پردیش میں قانون و نظم کو لیکرسرکاری کام کاج یا دفاتر میں پیدا کرپشن سے عام آدمی جس طرح سے عاجز آچکا ہے اس کی وجہ سے وہ اپنے حکمرانوں و سیاستدانوں کے تئیں ان کے دل میں عزت و احترامکا جذبہ ختم ہورہا ہے اس لئے کانگریس نے اپنے وزراء اعلی کووزیر اعظم کے ساتھ اسٹیج شیئر نہ کرنے کی جو ہدایت دی ہے وہ بھی پروٹوکول کی خلاف ورزی ہے ساتھ ساتھ کانگریس کی مایوسی کا بھی نمونہ ہے۔ اسے اپنے ہی وزراء اعلی کے۔ سدا رمیا سے سیکھنا چاہئے جنہوں نے پروٹوکول کی تعمیل کرنے کے تئیں عزم دکھایا۔اس معاملے میں یہ بات خاص طور پر غور کرنے کی ہے کہ قوم کی ترقی کیلئے مرکز اور ریاست کے بیچ کا رشتہ خوشگوار اور تعاون دینے والا ہونا چاہئے۔ یوم آزادی پر اپنی تقریر میں بھی نریندر مودی نے اس بات پر زور دیا تھا لہٰذا یہ ماننے کی نہ تو کوئی وجہ ہے اور نہ ہی بنیاد کے وزیر اعظم کی ریلیوں میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اسے اچھا مان رہے ہوں گے۔ مرکز میں تبدیلی اقتدار کے بعد ابھی کچھ ریاستوں میں اسمبلی چناؤ ہونے ہیں جو حالت نظر آرہی ہے اس میں زیادہ تر صوبوں میں موجودہ سرکاروں کے کام کاج سے وہاں کی عوام خاصی ناراض ہے ایسے میں تبدیلی چاہ رہی عوام اپنے طریقے سے اپنی رائے ظاہرکررہی ہے۔ بہتر ہو کہ اس سچائی کو بھی سیاسی پارٹیاں سمجھیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ابھی جو کچھ ہورہا ہے اسے اگر کسی سیاسی فائدے کے لئے اورطول دیا گیا تو اس سے مرکز اور سیاتوں کے درمیان ٹکراؤ کی ایک خطرناک شروعات ہوگی جو ہماری جمہوریت کیلئے اچھا نہیں ہے۔

 (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟