مودی حکومت کے آپریشن گورنربدل مہم کو جھٹکا!

گورنروں کو ہٹانے کی کارروائی پر اتراکھنڈ کے گورنر عزیز قریشی نے سپریم کورٹ جاکر مودی سرکار کی آپریشن گورنر مہم کو جھٹکا دیا ہے۔ اس کے چلتے سرکار کے نشانے پر آئے کئی گورنروں کی تبدیلی کا معاملہ پھنس گیا ہے۔ گورنر عزیز قریشی نے اب سیدھے طور پر مودی حکومت کو چیلنج کردیا ہے۔ وہ اس بات سے خاص طور سے ناراض ہیں کہ مرکزی ہوم سکریٹری نے کیسے ان سے استعفے کی مانگ کرڈالی۔ گورنر نے اس معاملے میں سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرکے سرکار کے برتاؤ کو چیلنج کردیا ہے۔ گورنر قریشی نے آئین کی دفعہ157(A) کا حوالہ دیکر عرضی دائر کی ہے۔ اس میں مئی2010ء میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیکر بتایا گیا ہے کہ گورنر مرکزی حکومت کا ملازم نہیں ہوتا۔ ایسے میں اسے آئینی عہدے پر بیٹھے گورنر سے استعفیٰ مانگنے کا حق نہیں ہے۔ قابل غور ہے کہ مئی 2010ء میں گورنروں کی برخاستگی سے وابستہ ایک معاملہ میں آئینی بنچ نے یہ فیصلہ سنایا۔ اسی فیصلے کو بنیاد بنا کر گورنر قریشی کے وکلا نے چنوتی دی ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ مرکزی ہوم سکریٹری نے ان کو استعفیٰ دینے کے لئے کہا تھا جبکہ ایسا حق صرف صدر کے پاس ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سرکار نے ایسا کرکے غیر قانونی کام کیا ہے اس لئے عدالت ضروری ہدایت جاری کرے۔ اس پر عدالت نے مرکزی حکومت اور ہوم سکریٹری کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 6 ہفتے میں جواب دینے کا حکم دیا ہے۔ ساتھ ہی عدالت نے اس معاملے کو پانچ نفری آئینی بنچ کے سامنے بھیج دیا ہے کیونکہ یہ سیکشن156 (گورنر کی میعاد) کی تشبیہ سے متعلق ہے۔ بہرحال عدالت میں جس طرح گورنر کے حق میں پیش ہوئے وکیل فوراً سابقہ کیبنٹ کے دو ممبر موجود رہے۔ان سے صاف ہے کہ یہ لڑائی قانونی کم سیاسی زیادہ ہے لیکن جس طرح گورنر اور مرکزی حکومت آمنے سامنے ہے وہ یقیناًبیحد افسوسناک ہے۔ دراصل عام طور پر یہی ہوتا آرہا ہے کہ جب مرکز میں نئی حکومت بنتی ہے تو سابقہ سرکار کے ذریعے گورنروں کی تقرری ختم ہوجاتی ہے۔ سابقہ حکومت کے ذریعے مقرر گورنر یا تو استعفیٰ دے دیتے ہیں یا پھر انہیں بدل دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ویسے تو گورنر کا عہدہ آئینی ہے لیکن اس پر عام طور پر مرکز میں حکمراں پارٹی کے ریٹائرڈ لیڈر یا ریٹائرڈ افسر وغیرہ معمور ہوتے رہے ہیں۔ 2004ء میں جب یوپی اے سرکار اقتدار میں آئی تھی تو اس نے این ڈی اے کے عہد میں مقرر زیادہ تر گورنروں کو ہٹا دیا تھا۔ دراصل یہ معاملہ جتنا آئینی ہے اس سے زیادہ سیاسی نفع نقصان سے وابستہ ہے۔ اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں اور سیاستداں آئینی تقاضوں کو اپنے فائدے کے مطابق تشریح کرنے میں زیادہ لگے رہتے ہیں لیکن کسی بھی تقاضے کے پیچھے آئینی مریادا ہے اس سے وہ یہ تو سمجھتے نہیں یا سمجھنا نہیں چاہتے۔ بہتر ہوگا کہ دن رات قسمیں کھانے والی ہماری سیاسی پارٹیاں گورنر کے عہدے کوابن الوقتی کی سیاست میں گھسیٹنے سے باز آئیں۔ اتنا طے ہے کہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں پہنچ گیا ہے اس لئے مودی سرکار کو باقی گورنر کو ہٹانے کی مہم کو جھٹکا ضرور لگا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!