بھاجپا نہیں مودی ۔شاہ پرائیویٹ لمیٹڈ کہئے!

بھارتیہ جنتا پارٹی اب مودی ۔شاہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بنتی جارہی ہے۔ یہ دونوں جس طرح چاہتے ہیں ویسے ہی حکومت اور پارٹی چل رہی ہے۔ بھاجپا پارلیمانی بورڈ کی تشکیل پراس طرح کی بحث چھڑنا فطری ہے جس طرح اٹل جی اڈوانی جی اور ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کو پارلیمانی بورڈ میں نہ شامل کرانہیں مارگ درشک منڈل میں رکھا گیا ہے ، اس سے نریندر مودی اور امت شاہ کے ارادہ پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ بھاجپا کا کہنا ہے کہ وہ بزرگ لیڈروں کے بدلے جوان لیڈر شپ کو ذمہ داری سونپنے کی پالیسی پر چل رہی ہے۔اگر اتنا ہوتا تو شاید کسی کو تنقید کرنے کا موقعہ نہیں ملتا جس طریقے سے امت شاہ نے باگ ڈور سنبھالی اسی سے پتہ لگ گیا تھا کہ یہ دونوں مل کر سب سے پہلے ان لیڈروں کو پارٹی امور سے ہٹائیں گے جن سے ان کو خطرہ ہے۔ پہلے اپوزیشن کو ختم کیا اور اب پارٹی کے اندر کسی بھی طرح کا چیلنج کرنے والوں کو باہر کا راستہ دکھایا جارہا ہے۔ نریندر مودی نے ان لال کرشن اڈوانی کو بے عزت کیا ہے جنہوں نے مودی کو ہاتھ پکڑ کر سیاست سکھائی تھی۔ امت شاہ نے بھاجپا کی باگ ڈور سنبھالی تبھی طے ہوگیا تھا کہ پارٹی کے فیصلے گجرات منڈل کی طرز پر ہوں گے۔ ان دونوں نے گجرات میں بھی یہی کیا ہے۔ 
سب سے پہلا کام گجرات میں یہ ہوا کہ بھاجپا آر ایس ایس کے ان لیڈروں کو ہٹایا جو مودی کی رائے سے متفق نہیں تھے۔اٹل بہاری واجپئی جی کی طبیعت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے وہ پارٹی کی سرگرمیوں میں شریک نہیں ہوپاتے مگر یہ ہی بات شری لال کرشن اڈوانی اور ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی معاملے میں صحیح نہیں ہے۔ ان کی عمر ضرور زیادہ ہوچلی ہے لیکن پارٹی میں ان کی سرگرمی مسلسل جاری ہے۔ میں اڈوانی جی کے ساتھ کئی دوروں پر گیا ہوں جن میں ملک اور بیرون ملک شامل ہیں۔میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اٹل جی نوجوانوں سے بھی زیادہ تندرست ہیں۔چاہے وہ اڈوانی ہوں چاہے مرلی منوہر جوشی ہوں دونوں پارٹی کے قیام سے اہم فیصلوں میں سانجھیدار رہے ہیں۔ اس بار بھی وہ لوک سبھا جیت کر آئے ہیں اس لئے انہیں پارلیمانی بورڈ سے باہر رکھناچونکانے والا قدم ہے۔ صاف ہے کہ اڈوانی اور ڈاکٹر جوشی کو مودی کو کچھ سمجھانا چاہئے اور اپنا احتجاج جتانا چاہئے لیکن اس سے پہلے انہوں نے انہیں پارلیمانی بورڈ سے ہی باہر کردیا۔ اڈوانی اسی ہٹلرشاہی کے طریقے کی مخالفت کررہے تھے۔ وہ مودی کے وزیر اعظم بننے کی مخالفت نہیں کررہے تھے لیکن ان کے کام کرنے اور بدلہ لینے کے طریقے پر احتجاج کررہے تھے۔ وہ پارٹی ورکروں کو سمجھا رہے تھے کہ مودی کو اتنی فرصت نہیں کہ وہ اڈوانی جی کی بات کو نہیں سمجھ سکے اور یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ کیونکہ وہ پردھان منتری بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں اس لئے وہ مودی کی مخالفت کررہے ہیں۔ 
آج مودی جی کا کیا حال ہے ،آتے ہی انہوں نے سب سے پہلا کام میڈیا سے دوری بنائی۔ وہ نہ تو میڈیا سے ملتے ہیں اور نہ ہی میڈیا کو وہ کہیں لے جاتے ہیں۔ معمولی ورکر تو دور وزیر تک وزیر اعظم سے نہیں مل سکتے۔ اگر وزرا کو پی ایم تک کچھ ضروری بات پہنچانی ہے تو انہیں امت شاہ کو بتانی پڑتی ہے۔ جہاں تک ڈاکٹر جوشی کا سوال ہے انہیں اس لئے بے عزت کیا جارہا ہے کیونکہ انہوں نے نریندر مودی کیلئے اپنی بنارس کی لوک سبھا سیٹ چھوڑنے سے منع کردیا تھا۔ اس کی کسک نریندر مودی کو ضرور ہوگی اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سرکار بننے کے بعد اس کے اشارے ملنے لگے تھے۔ ڈاکٹر جوشی ایک کامیاب وزیرانسانی وسائل ترقی کی حیثیت سے کامیاب رہنے کے باوجود انہیں وزارت میں جگہ نہیں دی گئی اور ان کو بے عزت کرنے اور زخم پر نمک چھڑکنے کی ایک نو سکھیا اسمرتی ایرانی کوکیبنٹ کا وزیر بنا دیا گیا۔ اڈوانی کو لوک سبھا اسپیکر بنا سکتے تھے ان کا سیاسی تجربہ پارٹی و سرکار کے کام آتا اور پھر جہاں تک مجھے یاد ہے اڈوانی نے کبھی بھی مودی کی پالیسیوں کی مخالفت نہیں کی۔ پارٹی میں سینئر لیڈر ہونے کے باوجود انہیں لوک سبھا میں وزیر اعظم کے پاس والی سیٹ پر بھی نہیں بیٹھنے دیا گیا۔ یہ سب انہیں عزت دینے کی علامت نہیں مانا جاسکتا۔ اب یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ نریندر مودی اپنے دائرے میں ایسے کسی بھی شخص کو نہیں رکھنا چاہتے جو ان کا کٹر مخالف رہا ہو اور آگے احتجاج کرسکتا ہو اور اس بات میں بھی دم لگتا ہے کہ آر ایس ایس بھی اڈوانی کے مخالفانہ تیوروں سے ناراض چل رہا تھا اور وہ انہیں کنارے کرنے کے موقعے کی تلاش میں تھا اس لئے امت شاہ نے اس کے لئے صحیح موقعہ تلاش لیا ہے اور اپنے صاحب کی خواہش پوری کردی۔ 
اڈوانی ۔ جوشی کے آنسو پوچھنے کے لئے انہیں مارگ درشک منڈل میں بھیج کر پالیسی ساز متعلق اختیارات سے دور کردیا گیا۔ مارگ درشک منڈل جیسا کوئی سسٹم بھاجپا کے آئین میں نہیں ہے ا س لئے ان سے کتنی رائے لی جائے گی اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ کانگریس کے ترجمان راشد علوی نے چٹکی لیتے ہوئے کہا کہ مارگ درشک منڈل نہیں یہ تو موک درشک منڈل اور اولڈ ایج ہوم ہے۔34 سال کی بھاجپا میں پہلی بار مارگ درشک منڈل جیسی کمیٹی بنائی گئی ہے۔ اس سے ان تینوں بزرگ لیڈروں کی باعزت الوداعی کے اسٹیج کی شکل میں دیکھا جارہا ہے۔ دراصل بھاجپا یہ پیغام نہیں دیناچاہتی کہ اس نے پارٹی کے تینوں بانی لیڈروں کو در کنارکردیا ہے۔ بھاجپا نے مارگ درشک منڈل کی جانکاری والی جو پریس ریلیز جاری کی ہے اس میں جن ناموں کی فہرست دی گئی ہے اس میں اڈوانی سے پہلے نریندر مودی کا نام ہے۔ فہرست کا سلسلہ اس طرح ہے (1) اٹل بہاری واجپئی،(2) نریندر مودی،(3) لال کرشن اڈوانی ،(4) مرلی منوہر جوشی،(5) راجناتھ سنگھ اور اڈوانی۔ جوشی کے بعد اب نمبر رام لال کا ہے۔ صاف ہے کہ مودی ۔ شاہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی ہی اب بھارت پر راج کرے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟