عورتوں کیخلاف جنسی حملوں میں اضافہ اور بے اثر قدم!

یہ انتہائی تشویش کا باعث ہے کہ راجدھانی دہلی میں عورتوں کے خلاف جاری جرائم میں کمی آنے کی جگہ مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ بڑھتے واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس حالت میں کوئی خاص فرق نہیں آیا۔ جو بھی قدم اٹھائے گئے ہیں وہ بے اثر ثابت ہورہے ہیں۔ پچھلی پیر کو دہلی کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں ایک نرس سے اجتماعی بدفعلی کے واقعے نے راجدھانی کو ایک بار پھر شرمسار کردیا ہے۔ عورتوں کی عصمت پر لڑکوں کے ذریعے ہورہے حملوں کے معاملے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نیشنل کرائم بیورو کی تازہ رپورٹ بتاتی ہے کہ ایسے معاملوں کی تعداد میں پچھلے سال کے مقابلے میں132 فیصد اضافہ ہوا ہے اور لڑکوں کے ذریعے آبروریزی کے معاملے میں60.3 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تازہ رپورٹ بتاتی ہے کہ لڑکوں کے ذریعے انجام دینے والے جرائم میں سب سے زیادہ اضافہ عورتوں کی عزت پر ہونے والے حملوں میں ہوا ہے۔ یہ اضافہ132.3 فیصد ہے۔جہاں تک عورتوں کی بے عزتی کے معاملے ہیں اس میں 70.5 فیصداور آبروریزی کے معاملے 60.3 فیصد بڑھے ہیں۔ انڈین پینل کوڈ کے تحت گرفتار لڑکوں میں سے66.3 فیصد کی عمر16 سال سے18 برس کے درمیان ہے۔ مرکزی وزیرخاتون و اطفال ترقی مینگاگاندھی نے آبروریزی جیسے گھناؤنے جرائم کے ملزموں کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرنے کی وکالت کی تھی جیسا کہ بالغ ملزمان کے ساتھ پولیس کرتی آئی ہے۔انہوں نے کہا کہ سبھی جنسی جرائم میں سے 50 فیصد ایسے ہیں جو16 سال کی عمر کے لڑکوں نے انجام دئے ہیں۔ جو لڑکے انصاف و قانون کو سمجھتے ہیں اس لئے وہ ایسا کرسکتے ہیں۔ آئے دن ہو رہے واقعات سے یہ تو صاف ہے کہ وسنت وہار اجتماعی آبروریزی کے واقعہ کے بعد سے راجدھانی میں عورتوں کی سلامتی کو لیکر اٹھائے گئے اقدام کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔ جرائم پیشہ لوگوں کے ارادے بلند ہیں اور پولیس کے حوصلے پست ہیں۔ اس واقعے کو گزرے ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے اور ملزمان کو سزا تو ملنی دور کی بات ہے ابھی عدالتوں میں ہی معاملہ پھنسا ہوا ہے۔ اس دل دہلانے والے واقعے کے بعد مرکزی سرکار دہلی حکومت اور دہلی پولیس نے عورتوں کے خلاف ہورہے مظالم میں کمی لانے کے لئے کچھ ضروری قدم اٹھائے ہیں لیکن آج کے حالات ان دعوؤں کی حقیقت صاف بیاں کرتے ہیں۔ یہ بھی طے لگتا ہے کہ صرف قانون پولیس اور بڑھتے واقعات کو ہی روک سکتی ہے جب تک ایسے جرائم پیشہ کو پھانسی پر نہیں لٹکایاجاتا ان میں خوف پیدا نہیں کیا جاتا ، یہ باز آنے والے نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ سماج کو بھی اپنا رول نبھانا ہوگا جیسا وزیر اعظم نریندر مودی نے یوم آزادی پر کہا تھا کہ ماں باپ کو اپنے بیٹے کی حرکتوں پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ ٹیچروں و سماج کے لوگوں کو بھی اس برائی کو دور کرنے کیلئے آگے آنا ہوگا۔ ایک صحتمند ذہنیت والا سماج بنانے کی کوشش کرنی ہوگی جس سے بدفعلی یا چھیڑ چھاڑ کے واقعات پر روک لگ سکے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟