’’لو جہاد ‘‘سے ہندو ووٹوں کو متحد کرنے کی تیاری!
اب تک شمال مشرقی اورمشرقی ریاستوں میں خاص طور پر عیسائی مشنریوں کے خلاف تبدیلی مذہب کا الزام لگاتی رہی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اب اترپردیش میں اپنی قومی ایگزیکٹو میں ’’لو جہاد‘‘ کا ریزولوشن لاکر تبدیلی مذہب کے خلاف وسیع تحریک چھیڑنے کی تیاری کرلی ہے۔بھاجپا کے سینئر لیڈروں کی مانیں تو غیر ملکی طاقتوں کے اشارے پر اور مالی مدد کے چلتے مغربی اترپردیش، آندھرا پردیش سمیت دیش کے کئی بڑے علاقوں میں کچھ مسلم تنظیموں کے ذریعے ہندو لڑکیوں کا مذہب تبدیل کراکران سے شادی کرنے والے مسلم لڑکوں کو اچھی خاصی رقم دینے کے ساتھ ساتھ ہی ان کے روزگار کا انتظام کرنے کا کھلا کھیل اس وقت چل رہا ہے۔ اس کا نمونہ پچھلے دنوں سہارنپور کی ایک مسجد سے بھاگی ایک ہندو لڑکی کے بیان سے ملتا ہے لیکن خوشامدی کے چلتے ریاست کی سماج وادی پارٹی سرکار اسے ایک لو افیئر مان کر رفع دفع کرنے میں لگی ہے۔ بھاجپا نے پردیش ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ کے پہلے ہی دن صاف کردیا پارٹی اسمبلی چناؤ میں طبقہ خاص کے ذریعے دوسرے طبقے کی لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرانے کے واقعات ’لو جہاذ‘ کو اشو بنائے گی۔ بھلے ہی میٹنگ کے اندر عہدیداروں نے سیدھے سیدھے اس نام کا ذکر نہ کیا ہو لیکن مرکزی لیڈر شپ کے تلخ تیوروں پر براہ راست اس لفظ کا ریاسی پردھان نے تقریر میں استعمال نہ کیا ہو لیکن اندر سے باہر تک درپردہ طور پر یہی اشو چھایا رہا۔ بھاجپا نے ا س مسئلے کے سہارے ہندوتو کی دھار تیز کر اقتدار پانے کا خواب دیکھ لیا ہے۔ پردیش کے پردھان ڈاکٹر لکشمی کانب باجپئی نے بھلے ہی ’لو جہاد‘ لفظ کا ذکر نہیں کیا لیکن انہوں نے باہر اور اندر جو کچھ کہا اس کا اشارہ اسی طرف تھا۔انہوں نے اندر کہا کہ قانون و نظام پوری طرح تباہ ہے۔ سپا سرکارکی پالیسی مذہبی رنگ دے کر فسادیوں کو تحفظ و مذہب دیکھ کر بے قصوروں کو ٹارچر کرنا ہے۔ میرٹھ اور عزیز گنج (فیض آباد) لونی(غازی آباد) کے واقعات سے صاف ہے کہ سرکار طبقہ خاص کے ملزمان کے تئیں نرم رویہ رکھتی ہے۔ طبقہ خاص ہونے کی وجہ سے انہیں سپا سرکار کی سرپرستی میں ذیادتی کرنے یا لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرانے کا لائسنس مل گیا ہے۔ جو حقائق سامنے آرہے ہیں اس سے تو یہ ہی امکان بڑھتا جارہا ہے کہ مسلمانوں کے ذریعے ہندو لڑکیوں کو جیسے بھی ہو پھنسا کر ،چاہے محبت کے جال میں یا اغوا کر ، یا کسی طرح کے تبدیلی مذہب کراکر مسلمان بنا لیا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے والے مسلمان لڑکوں کو بھاری رقم دی جارہی ہے جو مولوی لڑکیوں کا مذہب تبدیل کراکر نکاح پڑھا رہے ہیں ان کو کافی پیسہ دیا جارہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے اس کا سلسلہ ہر ریاست میں مسلم اکثریتی علاقوں کے کچھ چنے ہوئے مدرسے و مساجد ہیں اس کے لئے پیسہ باہر سے آرہاہے۔ غیر بھاجپا حکمراں ریاستوں میں یہ کام تیزی سے چل رہا ہے کیونکہ وہاں دوسری سرکاریں مسلمان پرستی والی ووٹ کی سیاست کررہی ہیں جس کے چلتے مسلمانوں کے خلاف جلدی کیس درج نہیں ہوتے اور انہیں بچانے کی کوشش ہوتی ہے جب تک ایسا کوئی معاملہ نہ بڑھ جائے۔ذرائع کے مطابق غریب لیکن گھنی آبادی والی ہندو بستیوں میں مکان خرید کر ان میں مسجد مدرسے کھولے جا رہے ہیں۔اس کے لئے فنڈ زیادہ تر پاکستان، دوبئی، ایران، سعودی عرب کے امیرمسلم ملکوں سے آتا ہے۔ بھارت کے بھی مسلم کاروباری بہت مدد کررہے ہیں۔ آئی ایس آئی بھی ایک بڑی رقم دینے والا ذریعہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک مسلم لڑکا شفیع الحسن نے اپنا نام رنجیت کمار کوہلی رکھا اور ہندو بن کر قومی شوٹر تارا سہدیو کو اپنے جال میں پھنسا کر شادی کرلی۔ اس کے بعد اس پر تبدیلی مذہب کراکر مسلمان بننے کا دباؤ بنانے لگا۔ تارا سہدیو کے ساتھ رونما واقعہ سے بھی یہ صاف ہوتا ہے کہ ’لو جہاد‘ بھارت میں ہندو آبادی کے خلاف سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔ حالانکہ لو جہاد کو اٹھانے کے بھاجپا کے سیاسی قدم کو دارالعلوم دیوبند نے سازش قراردیا ہے۔ مولاناؤں کا کہنا ہے اسلام میں ’ لوجہاد‘ جیسا کوئی لفظ نہیں ہے۔ یہ فرقہ پرست طاقتیں من گھڑت لفظ سامنے لائی ہیں۔ ہندو مسلم اتحاد کو خراب کرنے کے لئے کچھ لوگ ایسا کررہے ہیں۔ دنیا کی مشہور اسلام یونیورسٹی دارالعلوم اور دیگر مولاناؤں کی رائے میں یہ اسلام مذہب کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں