جب منتری جاوڑیکر نے تاخیر سے آئے ملازمین کو چھٹی پر بھیجا!

وزیر اطلاعات و نشریات مسٹر پرکاش جاوڑیکر نے پیر کے روز اچانک اپنی وزارت میں چھاپہ مارا اوردفتر میں پایا کہ بہت سے افسران غائب ہیں۔ تاخیرسے دفتر پہنچنے والے بابوؤں کے پسینے چھوٹ گئے۔ انہیں پتہ چلا کہ حاضری رجسٹر وزیر موصوف اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ کچھ دیر بعد چپڑاسی نے انہیں چھٹی کی درخواست تھمادی اور دیکھتے ہی دیکھتے وزیر اطلاعات و نشریات مسٹر پرکاش جاوڑیکر کے کمرے کے باہر چھٹی کی درخواست لے کر کھڑے بابوؤں کی لائن لگ گئی۔ قریب200 ملازمین کو زبردستی ایک دن کی چھٹی پر بھیج دیا ہے۔ دراصل جاوڑیکر صاحب مسلسل شعبہ جاتی ملازمین کو وقت پر دفترآنے کی ہدایت دے رہے تھے لیکن کسی نے ان کی نہ سنی۔ پیر کے روز وہ خود صبح9 بجے دفتر پہنچ گئے اور 9:30 بجے انہوں نے وزارت کے ہر کمرے کا معائنہ کیا اور دیکھا کہ ملازمین کی برائے نام حاضری ہے اور وہ اپنے کمرے میں پہنچے اور حاضری رجسٹر منگالیا۔ ملازمین دیر سے دفتر پہنچے تو انہیں چپڑاسیوں نے چھٹی کا فارم تھمادیا۔ یہ بھی کہا کہ اسے بھر کر منتری جی سے چھٹی لینی ہوگی۔ دیر سے آنے والے بابوؤں کو وزیر موصوف نے پہلے جھاڑ پلائی اور پھر ایک دن کی چھٹی پر بھیج دیا۔ جاوڑیکر کا کہنا تھا کہ کارروائی کا مقصد ہے کام وقت پر ہو، بابو گیری کم ہو کام زیادہ اور کم از کم گورمنٹ اور زیادہ گورننس محکمے میں لاگو ہو۔ مسٹر جاوڑیکر نے200 لیٹ لطیف بابوؤں کو ایک دن کی علامتی چھٹی پر بھیج کر صحیح پیغام دیا ہے۔ پیر کو وقت سے پہلے وزارت پہنچے منتری جی جب اپنے کمرے میں جانے کے بجائے دفتروں کے چمبروں کی طرف مڑے تو انہیں 200 کرسیاں خالی پڑی ملیں۔وزیر موصوف نے خالی کرسیوں کی اپنی موبائل سے تصویریں کھینچی پھر آنے والے لیٹ لطیف بابوؤں کو اپنے پاس بھیجنے کو کہا۔ سب کو شخصی وارننگ دی گئی۔وزیر شہری ترقی وینکیا نائیڈو نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی وزارت کا اچانک معائنہ کیا تو انہیں بھی اپنی وزارت میں ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے محض وارننگ دے کر سب کو سدھرنے اور اپنا رویہ بدلنے کی ہدایت دی۔ یہ حکومت بدلاؤ کو لیکر مینڈیڈ لیکر آئی ہے اور وزیر اعظم سے لیکر وزیر تک بدلے ہوئے رویئے اور محنت اور لگن اور عوام کی توقعات کی تکمیل اور انصاف کی تکمیل کے لئے 100فیصد خود کو وقف کرنے کی مثال قائم کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کیا یہ تبدیلی اکیلے وزیر اعظم اور وزرا کے بدلے جانے سے آجائے گی جبکہ ان کی وزارت میں چراغ تلے اندھیرا ہی بنا رہے۔ اس لئے وزیر اعظم نے عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد بڑے محکموں کے سکریٹریوں کے ساتھ سیدھے رابطہ قائم کیا۔ بتایا جاتا ہے افسر شاہی اشاروں کو جلد ہی اپناتی ہے لیکن دو محکموں کے اچانک معائنے سے تو لگتا ہے کہ تبدیلی کا پیغام ٹھیک سے نیچے تک نہیں پہنچا ہے۔ سکریٹریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نیچے کی مشینری پر شکنجہ کسیں اور سرکار کی منشا کے مطابق 100 فیصدی ڈلیوری یقینی کریں۔ ہم پرکاش جاوڑیکر اور وینکیا نائیڈو کے اس قدم کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟